ایک ہراسانی کا عالم ہے ‘ کوئی جان کر ہراساں کر رہاہے اور کوئی خود بخود ہراساں ہو اجاتاہے‘ ہر قسم کی ہراسانی ہے اور ہم ہیں ‘اس معاشرے کو آگے ہی دیمک لگی ہے اس پر نئے نئے کیڑے اسے مزید کھا رہے تھے ‘ پھراب تو اور ہی باتیںسامنے آ رہی ہیں‘جو موجودہ کرسیوں والے ہیں وہ کسی مخالف کو نہیں چھوڑ رہے ‘اب تو پچھلوں کو بھی جال میں پھنسایا جا رہاہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کورونا کو روئیں یا آٹے کی قلت کا سیاپا کریں یا پھر پٹرول کے مصنوعی پن کی ناپیدا کناریوں کو پیٹیں‘دوائیں ہیں تو چار گنامہنگی ہیں ‘کوئی مر جائے بس یہی اس کا علاج ہے ‘ اگر دوا خریدنے گیا تو وہاں زہر بھی نہ ملے گا اور مل جائے تو وہ بھی قیمت دے کر حاصل ہوگا‘تندور والوں کا بیان ہے کہ ہم پندرہ روپیہ فی روٹی کررہے ہیں ‘کوئی ٹوکنے والا نہیں ‘سنا ہے کہ اب تو کورونا مرغیوں میں بھی آگیا ہے اور عنقریب پنجاب سے مرغیوںکی سپلائی بندہوجائے گی ‘مگر کوروناتو ہر چیز میں ہے باہر کی ہوا میں اورگھر کی فضا میں ہے۔کمرے کے دروازے کے ہینڈل میں بھی ہے اور گھر کے مین گیٹ پر بھی اس کا لیپ ہو چکا ہے ‘پھر پنجاب میں توتھوک پھینکنے پر بھی جرمانہ ہے کہ اس میں بھی کورونا ہے اور ماں باپ کا جھوٹا پانی پینا بھی اب کورونا کے ہاتھوں منع ٹھہرا ہے ۔اگر کوئی اس سے بچاہے تو اپنی خوش قسمتی کی وجہ سے اس کی زد میں نہیں آ رہا‘ مگر کہتے ہیں کہ کورونا ہر ایک کو ہوگا۔ افراتفری کا عالم ہے‘جو بعض کےلئے افرا تفریح بن گیا ہے‘عام شام لوگوں کو اگر کورونا ہوتا ہے وہ جان سے جاتے ہیں تو انہیں کوئی پوچھتا نہیں ‘وہ گمنام سے جل جاتے ہیں چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں اور راتوں کے اندھیرں میں دفنائے جاتے ہیں‘مگر ٹی وی پرمشہور شخصیات کو جوکورونا ہو رہاہے وہ دل دہلادینے والاہے۔
وجہ یہ کہ ان کی وجہ سے تو خبر بنتی ہے ‘جس سے ایک ہراسانی کا عالم جنم لے رہاہے۔ نفسانفسی کا دور دورہ ہے‘ جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں وہ گھروں میں مقیم ہیںاور جو سمجھ کر بھی مجبور ہیں کہ روٹی توکمانا ہے وہ باہر ہیں اور کوروناکےساتھ دو بدو لڑائی میں مصروف ہیں‘ کوئی جتنا احتیاط کرے کورونا تو ہوگا‘جب تلک کہ اٹھائیس مالدار ملک ہمارے قرضے معاف نہیں کرتے کورونا توہو گا‘باہر کے بعض ملکوں میں تو کورونا کے باوجود لاک ڈا¶ن ختم کر دیا گیا ہے اور سکول کھول دیئے گئے ہیں‘جہاںسے کورونا پھوٹادوسرے ملکوں میں سپلائی ہوا خود وہاںدوماہ پہلے کورونا سے آزادی کا جشن منایا گیا‘جب بریکنگ نیوز آتی ہے کہ مشہور شخصیت میں کوروناکی تصدیق ہوگئی ہے تو دل دھڑکی میں اضافہ ہو جاتا ہے‘سوچتے ہیں کہیںیہ وائرس ہم تک نہ پہنچ جائے‘ کہیں ہم بھی اپنے دوستوں کی طرح ہسپتال جا کر بیڈ پر دراز نہ ہو جائیں‘رویل گلی نوتھیہ پشاور کے انور خان بھی گئے ‘ ہر چند وہ کورونا کے مریض تو نہ تھے مگر ان دنوں کی ہراسانی میں ان کی وفات سو غم کے اوپر ایک غم اور ہے ‘پیارے دوست جمیل قمر اس وقت ہسپتال کے بیڈ پربے ہوش ہیں ‘ان کی تصویر ان کے فرزند نے جاری کی ہے کہ ان کے لئے دعا کریں‘ان کو آکسیجن والے ماسک لگے ہیں ‘اب تو دعا کے انداز بھی بدل گئے ہیں ‘اب توسب انسانیت کی خیر مانگیں گے تو ہماری بھی خیر ہوگی۔
ہم ہر دور میں یہی کہتے ہیں کہ جو اسوقت کڑا وقت ہے ہمارے ملک پر اس سے پہلے سخت وقت کبھی نہیں آیا مگر اب کے تو سن بیس میں وہ تباہی آئی کہ اس سے تو ملک کی روٹی جو پہلے سوکھ چکی تھی اب نانبائیوںکی ہڑتالوں کے کارن اور خشک ہو جائے گی‘ کہتے ہیں کہ سوکھی روٹی کو دوبارہ پیس کر آٹا بناتے ہیں اوراس سے روٹی بنتی ہے ‘خدا جانے کون سی بات کہاںتک سچ ہے ۔مگر ایسی بے برکت ہواچل رہی ہے کہ جس تندور سے بھی روٹی لو اس میںلذت اور مزا نہیں ‘ایک گھنٹہ روٹی دستر خوان میں لپیٹ کر رکھ دو روٹی اس طرح سوکھ جائے گی جیسے گتے کی بنی ہو‘ باواجی حکومت کی رٹ نہیں رہی ۔پٹرول والوں پر تو ا ن کابس نہیں چلتا‘ہراسانی کے نام پر جن کے کالے کرتوت سامنے آ رہے ہیں وہ انکاری ہیں کہ ہم تو دودھ کے دھلے ہیں ‘مگر عنقریب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا کیونکہ جو مسئلہ بھی شروع ہوتا ہے آخر ختم تو ہوتا ہے‘ اگر اس کا رزلٹ نہ آئے مگر عوام کو اپنااپنا نتیجہ نکالناہے‘کتنے طیارے حادثے کا شکارہوئے مگر ان کی فائنل رپورٹ آ کر بھی منظر عام پر نہ آئی‘ کتنے مشہور حادثات ہوئے مگر ان کی فائنل رپورٹ آکر بھی منظر عام پر نہیں آئی ۔ ’کراچی کے غوث متھراوی کا شعر ہے کہ ’خبر اخبار میںآئے نہ آئے ۔خبر سے بے خبر کوئی نہیں ہے ۔