اس بات کی پرواہ نہیں کہ ہم نے کسی سے ہاتھ نہیں ملانا اور چہرے پر ماسک لگانا ہے۔ لوگوں کو بھرپور آگاہی تاحال نہیں ہے‘ دھڑلے سے ہاتھ ملاتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں ‘دل ٹھنڈا نہ ہو تو جان بوجھ کر گلے ملتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہے کہ ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے جائیں‘ ثبوت کے طور پر کہتے ہیں کہ حکومت کو اب پولیو کے قطروں کے پلانے کی مہم بھولی ہو ئی ہے ہرمہینے ہر میںدو بار جو یہ لوگ گھروں کے دروازے کھڑکھڑاتے تھے کہ بچوں کو قطرے پلا لو کیا اب ان کو پولیو کے معاملے میں تشویش نہیں مگر ان کو کون سمجھائے کہ پولیو سے بدرجہا خطرناک یہ کورونا ہے‘ایسا دشمن جاں کہ اس سے پہلے شایددنیا پر اس طرح کا برا وقت نہیں آیا ہوگا کیونکہ پوری دنیا غم سے نڈھال ہے‘اداس ہے اورجینے کی امنگ اور زندہ رہنے کا مزہ سب کچھ چھن گیا ہے ۔زندگی تو پہلے ہی تلخ جام تھی اور جینا تھا مگر اب تو زندگی زہر بھی اگر ہے تو پیناہے ‘دنیا بھر کی رونقیں مانند پڑ گئی ہیں‘کبھی لگتا ہے سب مشکوک ہے ‘مگر دنیا میں بڑھتی ہوئی اموات ظاہر کرتی ہیں کہ کورونا کا وجود ہے اور بھاری بھرکم ہے اور خطرناک ہے اور بھرپور ہے ‘آپس کے میل جول کے کم کرنے سے اس سے بچنا واحد علاج ہے جب تک کہ اسکاعلاج دریافت نہ ہو اس کےساتھ مقابلہ کرنا ہے اور اس کےخلاف کمر کسنا ہے‘ کوئی بھی جگہ ہے اس وائرس کے ستم سے آزاد نہیں ہے ‘ ہر جگہ ویرانی چھائی ہے ‘ ہر آدمی ایک دوسرے کےلئے مشکوک ہو چکا ہے‘ جانے کس کو کورونا ہے اور کس کو نہیں ‘ کوئی گھرآیاتو اسے نکال نہیںسکتے ۔
مگر کیاپتا وہ آتے ہوئے ساتھ کورونالایا ہو یا ہمیں خود کورونا ہو اور ہم دوسرے کو ہاتھ ملا کر یا دوسرے طریقوںسے منتقل کر رہے ہیں‘ اسوقت بہت آزمائش کا وقت ہے ہمیں بہت محنت کرنا ہے بہت قربانی دینا ہے ‘ہر بات کی میل جول کی پھر باتیں بھی ایک دوسرے سے زیادہ نہیں کرنا‘ عجیب قسم کی صورتحال ہے جو اس سے دنیا میں دیکھی نہیں گئی ہو‘وائرس تو پہلے بھی آئے اور ہر دور میں آئے بیماریاں آئیں اور لوگوں کی جان لے گئیں مگر اب تو کڑا امتحان ہے کیونکہ ماضی میں تو انسانوں کو کچھ معلوم نہ تھا‘مگر اب تو سب کچھ سب کو پتا ہے ‘سائنس نے ہر آدمی کی آنکھ کھول دی ہے‘اگر کوئی اس کے باوجود بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھاہے تو اس کی مثال کبوتر کی سی ہے ‘جوبلی کودیکھ کرآنکھیں بند کر لے کہ بلی چلی گئی ‘مگر بلی کبوتر کوہڑپ کر لیتی ہے‘ یہ تو وہ بات ہوئی کہ ایک ہی سڑک پر دو طرفہ ٹریفک ہو ‘آپ کے پاس گاڑی کے ہر قسم کے کاغذات موجود ہوں آپ کی ڈرائیورنگ کی مہارت کے سرٹیفیکیٹ بھی ہوں ‘آپ حد درجہ احتیاط سے کام بھی لے رہے ہیں ‘مگر بعض موقع پرآپ اپنے آپ کو بچا نہیں پائیں گے ‘کیونکہ یہ سڑک نہ صرف آپ کی ہے بلکہ دوسروں کی بھی ہے‘ اگر سامنے سے آنےوالا آپ جیسی تمام دستاویزات کے ہوتے بھی نشے میں ہو اورآپ کی گاڑی کو ٹھوک دے تو کون روک سکتا ہے‘ان دنوں کورونا کے بارے میں جو ہدایات جاری ہورہی ہیں اور نت نئے حکم نامے ترتیب دیئے جا رہے ہیںان کا معاملہ کچھ اسی طرح ہے ۔
مگر سب اگر ان ہدایات پر عمل کریں توپھر کہیں اس وائرس کی روک تھام ہو ‘جو پڑھے لکھے ہیں سمجھتے ہیں کہ کورونا سچ ہے اور تلخی سے بھرا ہوا سچ ہے وہ تو ہر طرح سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور دوسرے کو بھی کسی حد تک روک پائیں گے ماسک لگائیں گے چہرہ ڈھانپ لیں گے اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف کرتے رہیں گے ‘مگر کچھ ایسے بھی جو اے ٹی ایم مشین کے کیبن میں خود سینی ٹائزر کی بوتل پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں‘اب یہ کرنے کے کام ہیں جو ہم کر تے ہیں ‘اب لاک ڈان والی وہ تشویشناک صورتحال نہیں ‘اب تو ہماری حکومت عالمی صحت کے ادارے کی بات بھی ماننے کوتیار نہیں کہ پندرہ دن لاک ڈان اور پندرہ دن آزادی‘لیکن ایس او پیز کی پابندی توکرناہے یہاں تو جس سے ہاتھ نہ ملا وہ زبردستی ہاتھ ملاتا ہے اور پھر جرمانے کے طور پر گلے بھی ملتا ہے کہ چھوڑو یار جو رات اندر وہ باہر نہیں ۔جو دن مقرر ہے وہ اس کو کوئی تبدیلی بدل نہیںسکتی۔
اگر ایسا ہے تو کیوں سڑک پر سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ اگر میں نے مرناہوا تو مر جاں گا۔ مگر خدا نے جو عقل دی ہے‘ حساب تو اس چیز کا لیا جاتاہے جو دی گئی ہوتی ہے کہ کتنا خرچ کیا اور کتنا باقی چھوڑا اور خرچ بھی صحیح کیا کہ نہیں یا یونہی لٹا دیا ۔ عقل تو انسان کے علاوہ کسی اور مخلوق کو نہیں ملی ہوئی‘سو اسی وجہ سے حساب کا دن اس کےلئے مقررہے ‘آج کل جو صحت کے اداروں کی ہدایات ہیں ان پر عمل کرنا اور کروانا ہے‘ وگرنہ تو ہم خود اپنے پاں پر کلہاڑی مارنے والے ہیں کورونا اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے ‘ا س کا کچھ کرنا ہوگا۔