سب سے پہلے تو یہ کہ فیس بک کو سیریس نہ لیا جائے گپ شپ کی چیز ہے اسے گپ شپ کےلئے ہی رکھا جانا چاہئے‘اب موبائل پر ایس ایم ایس کا مطلب شارٹ میسج سروس ہے‘ مگر اس کو بھی ہمارے بھائی بند اپنے مطلب کےلئے استعمال کرتے ہوئے اس پر اصلاح والے اتنے تفصیل کے مسیج کرتے ہیں کہ اگلاتنگ ہو جاتا ہے ‘انسان کی عادت ہے کہ وہ اصلاح قبول نہیں کرتا جب تک کہ خود اسے کوئی تجربہ نہ ہو ۔ مگر بعض حضرات نے جو ٹھیکہ لیا ہے اور وہ فیس بک کے ذریعے اگلے کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں کہ اس کی سوچ اس کازندگی گزارنے کا سٹائل سب کچھ بدل جائے‘انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا ہوتا نہیں۔عقیدہ ایسی چیز ہے کہ اس کےخلاف ہزار دلیلیں دی جائیں مگر اگلا سب کچھ جان کر بھی آپ کی دلیلوں کے سامنے اپنی سوچ نہیں بدلے گا۔ فیس بک وقت کا ضائع کرنا نہیں ‘یہ بہت اچھی چیز ہے ‘مگر اس حد تک کہ اس سے غلط کام نہ لیا جائے یہ ایک قسم کا سوشل اخباری کام ہے لیکن اگر کسی میں غلطی ہو تو اگلا آدمی ہفتہ دس کے بعد آپ کو ان فرینڈ کر کے بلاک کر دے گا‘فیس بک کو وقت دینا چاہئے‘ وہ زمانے گئے جب اس کی مخالفت کی جاتی تھی ‘اس کو اب معلومات کےلئے چیک کرنابہت ضروری ہے ‘کیونکہ یہ سیکھنے کاایک بہترین ذریعہ بن چکا ہے ‘یہا ںڈاکٹر بھی ہیںاور حکیم بھی آتے ہیں ‘ہر آدمی اپنے مقصد کی تکمیل چاہتا ہے ‘ہر قسم کے ٹھیکےدار آ کر اپنا اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ‘یہ توشو شا کی چیز ہے ‘ کوئی تصویر لگا دی کوئی دو تین جملوں کی پوسٹ لگا دی کسی کو ہنسا دیا کسی کو کوئی اطلاع کر دی۔
مگر اس کو ناجائز طور پر استعمال کرنا ہر جگہ غلط سمجھا جائے گا۔ ایک بار اگر آپ سے لوگ تنگ ہو گئے تو آپ کی پوسٹ کو دیکھیں گے مگر پڑھیں گے نہیںاگرپڑھ لیا تواس پر عمل نہیں کریں گے‘کیونکہ یہ تو انٹر ٹین منٹ کی چیز ہے‘یہاں سنجیدگی کا کام نہیں ‘ہاں اگر تفریح کے بہانے آپ نے کوئی نصیحت کر دی تو شاید اسے قبولیت مل جائے‘ فیس بک پر تو جو سکالر نہیں وہ بھی سکالر بنے ہیں اور جو سکالر ہیں کچھ زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش میں ہیں‘بعض تو یونان کے سقراط کچھ افلاطون بن کر خزانے لٹا رہے ہیں ۔ ایک ہا ہا کار مچی ہوئی ہے‘ ایک طوفانِ بلا خیز ہے ‘خواہ مقصد اچھا ہو تب بھی کبھی کبھار اس قسم کا بندہ دوسروں کےلئے بوجھ ہے ‘غیر ضروری تفصیل بلکہ تفصیلات اور پھر تفاصیل مہیا کی جاتی ہیں‘ اگلا آپ سے تفصیل مانگے نہ مانگے مگر سو سو وضاحتیں ہو رہی ہیں‘ کسی نے اگر پوسٹ لگا دی تو اس پر بحث کے دروازے کھل جاتے ہیں‘بس ایک اودھم مچا ہے اس سے کون بچا ہے ‘ہر آدمی فیس بک استعمال کررہا ہے‘اسکا استعمال ضروری بھی توہے کیوں کہ یہی واحد فورم ہے کہ بندہ اس پر اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ دل کا غبار نکال سکتا ہے ‘کیونکہ اور ذرائع ایسے ہیں جہاں آدمی کا گلہ گھونٹا جاتا ہے کہ بات نہیں کر نی ۔ ہونٹوںکو سینا ہے یہ زہر پینا ہے ‘ لبوں پر چپ کے تالے لگانے ہیں ‘مگر فیس بک پر دیکھو تو کسی کے خلاف بات کرکے دل ٹھنڈا کرنے کودوسرے کے جذبات کو گرم کردیا جاتا ہے‘ایک آدمی اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے‘ کتابوں کے حوالے دے کر دوسرے کو اپنی سوچ پر منتقل کرنا چاہتا ہے ۔
مگر فیس بک کے سکالر کو وہی پسند کرتے ہیں جو اس سوچ کے حامی ہوتے ہیں‘کوئی بھی اپنی سوچ کوچھوڑ کر کسی دوسرے کی سوچ کو نہیں اپناتا‘ فیس بک تو ہنسی مذاق کی کھیلنے کھالنے کی چیز ہے‘مگر اس کو سنجیدگی میں اپنی نیک نیتی کےخلاف استعمال کرنا اور پھر دوسروں پر مسلط ہونا مناسب نہیں ‘پھر کوئی پوسٹ ہو تو غیر ضروری تفصیل میں جا کر کتابوں کا مواد وہاں انڈیل دینا درست نہیں ‘جسے اگلا قبول بھی تو نہیں کرتا‘کسی کے پاس اتنا ٹائم کہاں جو پوری کتاب کا موادجام سے باہر لڑھکتا ہوا ابلتا ہوا دیکھے ‘یہ تو مختصر سی بات کرنے کا فورم ہے‘کوئی پوسٹ لگا دی تو تین جملوں میں بات کہہ کر دوسرے کو سوچنے کاموقع دیناہے ‘تفصیل دینے سے اگلا بدگمان ہو تا ہے کہ یہ اپنی سوچ ہم پر تھوپنا چاہتا ہے‘ فیس بک تو ٹھہری تفریح کی چیز ‘اس میں اگر کوئی سنجیدہ ہوتا ہے تو اسے تھوری دیر کےلئے قبول کر لیا جاتا ہے مگر زیادہ سنجیدہ ہو اور روز کے حساب سے بے حساب ہو تو اسے ان فرینڈ کر دیتے ہیں یہاں خواتین بھی ہیںاور حضرات بھی ہیں ۔ نقاب اوڑھے ہوئے تصویروں کے پیچھے چھپے ۔کچھ معلوم نہیںکہ مرد کی تصویر کے پس پردہ کون خاتون ہے اور اور خاتون کے فوٹو کے پیچھے کون اپنا چہرہ چھپا رہاہے ‘ سو احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے ۔ زیادہ تر لوگ کسی فی میل کو ریکوئسٹ بھیجتے ہیں اوروہاں سے قبولیت کی سند جو مل جائے تو اسے فون پہ فون کرکے پاگل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔