بھیڑوں کے ریوڑ پر جب کوئی بھیڑیا حملہ کرتا ہے تو بھیڑیںجان بچانے کےلئے دوڑتی ہیںجو بھیڑ تیز دوڑسکتی ہے وہ جان بچالیتی ہے اور جوکمزور ہو اوردوڑ نہیں لگا سکتی وہ جان سے چلی جاتی ہے۔ اگر بھیڑےئے زیادہ ہوں یا ایک ہی درندہ بار بار حملہ کرے تو ہر دفعہ کمزور بھیڑ کی شامت آجاتی ہے۔ اس طرح جب کوئی بیماری بھیڑوں یا دوسرے جانوروں میں پھیل جائے تو جوان‘ مضبوط اور طاقتوراسکا مقابلہ کرلیتے ہیں اور کمزورزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں‘ اسی طرح جب ساٹھ فیصد آبادی کو بیماری لگ جاتی ہے اور جنہوں نے مرنا ہو وہ مر جاتے ہیں تو زندہ رہنے والے ہرڈ (ریوڑ) ایمونٹی حاصل کرلیتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے پیش نظر دنیا کے اکثر ممالک میں لاک ڈاو¿ن کیا گےا۔ سوئیڈن جہاں صحت کی اعلیٰ سہولتیں میسر تھیں ‘نے عوام پر زیادہ پابندیاںلگانے سے اجتناب کیا اور مکمل تالہ بندی نہیں کی‘چند اقدامات اٹھائے۔ پچاس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگا دی‘ پرائمری سکول کھلے رہے‘ ہائی سکول اور یونیورسٹیز بند رہیں‘ ریستوران اور دکانیںکھلی رہیں‘ حکومت نے عوام سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اپیل کی‘ عوام محتاط رہے‘لیکن بیماری کا حملہ رکا نہیں‘ 24 لاکھ کی آبادی میں 4854 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آبادی کے تناسب سے نقصان کی شرح قریبی ممالک ناروے اور ڈنمارک جہاں سخت لاک ڈاو¿ن کیا گیا تھا‘ سے زیادہ ہے اگرچہ دوسرے یورپی ممالک جیسے اٹلی‘سپین‘ فرانس اور برطانیہ سے یہ شرح کم ہے‘ سوئیڈن نے ابھی تو لگتا ہے وبا پر قابو پالیاہے اور عوام نے ہرڈایمونٹی حاصل کرلی ہے ۔
لیکن زیادہ ترعمررسیدہ‘بزرگ افراد اور دائمی مریض جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اس بیماری کا یہی واحد علاج ہے اور یہ قانون فطرت ہے‘بہار آنے سے پہلے مالی درختوں کی شاخ تراشی کرتا ہے‘جہاں اسے پرانی‘ کمزور اور بوسیدہ شاخ نظر آئے اسے کاٹ دیتا ہے‘ جہاں سوکھتاہوا درخت دیکھتا ہے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے‘ اس جگہ نیا پودہ لگا دیتا ہے‘ جو پھول اپنی بہار دکھاچکاہو اس کو صاف کرکے نئے پھولوں کےلئے جگہ تیارکی جاتی ہے‘ پرانے پھول سوکھ جاتے ہیں تو نئے اور خوبصورت پھو ل اپنی بہاردکھا دیتے ہیں‘ انسانی معاشرے کا بھی ایسا ہی دستور ہے‘ پرانے لوگ رخصت لیتے ہیں اور نئے ان کی جگہ لے لیتے ہیں‘طاقتور زندہ رہتا ہے اور کمزورمر جاتا ہے یہ وہ نظریہ ہے جس کے پیش کرنے پر چارلس ڈارون پرتنقیدکی جاتی ہے‘اس سے اختلاف کرنےوالوں کا موقف ہے کہ انسانی معاشرے میں کمزوروںکا تحفظ کیاجاتا ہے اور انکا خیال رکھا جاتا ہے‘ ان کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑا نہیں جاتا‘ اسلئے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن ہرڈ ایمونٹی بھی تو کمزور کو جینے کا کوئی حق نہیں کے اصول پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا نام ہے‘کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اسی قانون پر عمل پیرا ہیں؟ہم نے اپنے ملک میں حکومت کی طرف سے لاک ڈاو¿ن کے فیصلے کی پابندی نہیں کی‘ماسک پہنا نہ سماجی فاصلہ رکھنے کا خیال رکھا‘ پتہ نہیں ہاتھ کتنی دفعہ دھوئے ہوں؟ اور جب لاک ڈاو¿ن ہٹا لیا گیا توبازاروں کا رخ کیا۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے گئے۔
سڑکوں پر گھومتے رہے اور دکانات پر جاتے رہے‘کیونکہ عید کےلئے نئے کپڑے خریدنے تھے۔کورونا کی بیماری کو ایک بڑے سازش کا شاخسانہ سمجھا‘ جنہوں نے عقل کے ناخن لینے کا کہا ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ گیلپ سروے کے مطابق ہمارے ہاں ساٹھ فیصد افرادکورونا کے سلسلے میں کسی نہ کسی سازشی نظریے پر یقین رکھتے ہیں ‘اگر کسی گھر میں آگ لگ جائے تو گھر کے مکینوںکو پہلے آگ بجھانی چاہئے پھر یہ بحث شروع کرنی چاہئے کہ آگ کیسے لگی تھی؟ ہمارے ہاں اسوقت کورونا کی وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے‘ ایک دن میںچھ ہزار سے زائد مریض ہسپتال پہنچ رہے ہیں‘ بہت سے لوگ گھروں پر اپنے آپ کو قرنطینہ کئے ہوئے ہیں‘کئی لوگ بتاتے بھی نہیں اسلئے کہ یہ بیماری ایک طعنہ بن گئی ہے‘یہ خوف بھی موجود ہے کہ موت کی صورت میں لواحقین مرحوم کو دفنا نہیں سکیں گے اسلئے ہسپتال جانے سے کتراتے ہیں‘اس سے بہت نقصان ہو رہا ہے‘ جو لوگ بچناچاہتے ہیں وہ بھی متاثر ہو رہے ہیں اور زیادہ تر بیمار افرادکویا تو پتہ نہیں یا بتاتے نہیں اپنی بیماری کے بارے میں تاکہ لوگ ان سے سماجی فاصلہ رکھیں‘ اسوقت ہمارے ہاں اس موذی مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے‘ مریضوں کی تعداد اس سے کئی گنا تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ اب کہا جا رہا ہے کہ کوئی احتیاط کرے یا نہ کرے یہ بیماری سب کو ہونی ہے‘ایسا ہونا تو نہیں چاہئے لیکن اگر ایسا ہوجائے تو زیادہ تر عمر رسیدہ اور بزرگ افراد جان سے جائیں گے‘ ہم ہرڈ ایمونٹی حاصل کرلیںگے لیکن بزرگوں‘عمر رسیدہ اورکمزور افراد کو وبا کے منہ میں دھکیل کر۔اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو پھر احتیاط کیجئے اور کورونا سے بچئے۔