آخری نشانی

جولیانا کی عمر پانچ سال تھی‘ اسے اپنا والد اچھی طرح یاد ہے‘ وہ اسکے دفتر آتی اور اسے کام کرتے دیکھتی۔ اس کا والد وزیراعظم تھاجس نے ملک کی آزادی کیلئے گراں قدر خدمات انجام دی تھیں اور عوام نے اسے بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا اس نے عنان اقتدار کی منتقلی کے موقع پر1960 ء میں بلجیئم کے دارالخلافہ برسلز میں ایک تقریر کی جو اس کے ملک کے سابقہ حکمرانوں کو پسند نہیں آئی‘اس نے اپنے مظلوم عوام پر روا رکھے گئے مظالم کا نقشہ کھینچا تو یہ بادشاہت کی توہین سمجھی گئی‘ اس کا یہ اعلان کہ اب ملک کی معدنی دولت یعنی ہیرے، سونے، یاقوت اور زمرد کے مالک سیاہ فام مقامی لوگ ہونگے استحصالی قوتوں کو ناگوار گزرا‘ اس کے علاوہ اس قائد پر روس نوازی کا الزام بھی دھر لیا گیا تو پھرمغربی ممالک میں کسی کو اس کا ساتھ دینے میں دلچسپی نہیں رہی۔ اسکے خلاف سازشوں کا آغاز گھر سے ہوا اور اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا۔پہلے تو کٹنگا صوبے نے خود مختاری کا اعلان کیا‘بلجیئم نے اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے فوج بھیج دی لیکن اس کی ہمدردیاں کٹنگا کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ تھیں‘ دوسری طرف سے نو آزاد مملکت کے صدر نے وار کیا اور وزیراعظم کی معزولی کا پروانہ جاری کرکے اس کو اقتدار کے تیسرے مہینے معزول کیا‘  اس نڈر قائد کی زندگی برسر اقتدار طبقے کیلئے خطرہ بن گئی تھی لہٰذا اس کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 
اس بطل حریت کا کیا انجام ہوا اس راز سے اس وقت کے کانگو میں متعین بلجئیم کے پولیس کمشنر جیرالڈ سویٹر نے چالیس سال بعد پردہ اٹھایا۔ اس افسر نے 1999 ء میں ایک ٹیلی وژن انٹرویو کے دوران مقبول عوامی قائد کے ساتھ کئے گئے ظلم کی جو تفصیل بتائی اس کو سننے کیلئے دل گردہ چاہئے آزادی کے اس متوالے کو پہلے باغی صوبے کٹنگا لے جایا گیا اس پر تشدد کیا گیا اور پھر اسے دو ساتھیوں سمیت رات کی تاریکی میں گولیاں مار دی گئیں اس کی لاش کو دفنایا، نکالا، اور بالآخر تیزاب میں جلایا گیا۔ اس موقع پربلجیئن پولیس کمشنر نے لوممبا کی دو انگلیاں اور دو دانت اپنے پاس رکھ لئے تھے‘ وہ افسر مر گیا تواس کی بیٹی گوڈیلیو نے2016 ء میں انکشاف کیا کہ اس کے پاس فقط ایک دانت محفوظ ہے‘ اس دانت کو بلجیئم حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد 20 جون کو آنجہانی کے خاندان کو واپس کر دیا‘یہ دانت عظیم افریقی رہنما اور کانگو کے 34 سالہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے حریت پسند قائد پیٹرس لوممبا کا تھا جس کو 17 جنوری 1961 ء کو مارا گیا تھا‘ فروری 1961 ء میں روسی حکومت نے ماسکو کی پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی کو آنجہانی پیٹرس لوممبا کے نام کیا جہاں اکثر غیر ملکی پڑھنے آتے ہیں۔
 سوویت یونین کے اختتام پر 1992 ء میں یونیورسٹی کا سابقہ نام بحال کیا گیا لیکن لوگ اس کو لوممبا کے نام سے ہی یاد کرتے رہے‘ اب برسلز میں ایک چوک کو پیٹرس لوممبا سکوائر کا نام دیا گیا ہے۔ اپنے والد کی آخری نشانی، سونے کی پتری لگے ہوئے دانت وصول کرتے ہوئے جولیانا نے ایک سوال کیا، کسی سے اس طرح کا سلوک کرنے کیلئے تمہارے دل میں کتنی نفرت ہونی چاہئے؟اس کا جواب کون دے گا؟ بلجیئم کے بادشاہ نے گانگو کے اپنے حالیہ دورے میں وہاں کے عوام کے ساتھ نوآبادیاتی دور کی تکالیف پر گہرے افسوس کا اظہار تو کیا لیکن معافی نہیں مانگی‘ کہا جاتا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں لاکھوں عوام بھوک، افلاس اور بیماریوں کا شکار ہوئے جن میں ایک کثیر تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی لیکن نوآبادیاتی ادوار میں یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی‘ پیٹرس لوممبا کا دانت کنشاسا میں گانگو کی آزادی کی 62 ویں سالگرہ کے موقع پر30جون کو دفنا دیا گیا‘ لوممبا کی قبر اگر بنتی تو شاید اب تک عوام کے دلوں سے محو ہو چکی ہوتی لیکن اس کے دانت پر تعمیر ہونے والی  یادگار مدتوں اس عوامی رہنما پر کئے گئے ظلم کی یاد دلاتی رہے گی۔