ذہنی بیماریوں کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کرنے کی خاطر برٹش پاکستانی سائیکاٹرسٹس ایسوسی ایشن نے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں تقریبات کا اہتمام کیا جن میں نامی گرامی ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے حصہ لیا۔ مذکورہ ایسوسی ایشن کے صدر اور متذکرہ تقریبات کا روح رواں ڈاکٹر شاہد لطیف اس مقصد کیلئے خصوصی طور پر برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں ذہنی صحت کا دن ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اورعالمی ادارہ صحت نے اس سال اس دن کے لئے جو مرکزی خیال (تھیم) منتخب کیا تھا وہ ”ذہنی صحت اور بہبود کو ترجیح دیجئے“ تھا۔ راولپنڈی پی سی میں منعقدہ تقریب میں مقررین نے ذہنی صحت کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات کی وضاحت کی کہ کوئی شخص اس وقت تک مکمل صحت مند نہیں ہو سکتا جب تک وہ ذہنی طور پر صحت مند نہ ہو اس لئے کہ صحت سے مراد ایک شخص کی جسمانی، ذہنی اور سماجی بھلائی ہے۔ ذہنی طور پر تندرست فرد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر روزمرہ زندگی کے معمول کے دباؤ سے نمٹ سکتا ہے، بامقصد اور مفید کام کر سکتاہے، روزگار کرنے کے قابل ہوتا ہے اور معاشرے کا کارآمد فرد بن سکتا ہے۔ یہ تشریح مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 20% بچے اور نوجوان ذہنی مسائل سے دوچار ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ کم سنی میں ذہنی یا نفسیاتی مسائل کا کسی کو سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن یہ سراسر غلط ہے۔ 2017میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک سٹڈی ہوئی تھی جس کے مطابق دنیا میں 79کروڑ افراد یعنی ہر دسواں شخص کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ کووڈ وباء کے دوران ایک اندازے کے مطابق ہر آٹھواں شخص کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا تھا اور لاک ڈاؤن کیوجہ سے بہت سے لوگوں کو ضروری طبی سہولیات میسر نہ ہوسکیں۔ اس دوران انگزائٹی اور ذہنی تناؤ کے مریضوں کی تعداد 25% بڑھ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں 90% نفسیاتی مسائل کے سبب زندگی سے بے زار ہوچکے ہوتے ہیں‘ ذہنی مریض نہ صرف اپنے آپ کو تکلیف دیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں‘ ان کو اس بات کی پہچان نہیں ہوتی کہ وہ جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بسا اوقات ذہنی اور نفسیاتی امراض کی وجہ سے جسمانی امراض خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا ذہنی تناؤ سے گہرا تعلق ہے‘ کبھی کبھی ایک بے جا اور انجانا خوف کسی کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے جو نہ صرف ایک نفسیاتی مسئلہ ہے بلکہ عارضہ قلب جیسے مریضوں کے لئے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔پاکستان میں ذہنی بیماریوں کی صورت حال اور علاج کی سہولیات زیادہ بہتر نہیں ہیں‘ اس کے علاوہ مریض بدنامی کے خوف سے ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کرتا ہے۔ وہ تب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جب دیر ہوچکی ہوتی ہے اور بیماری خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر معالج کیا کرے گا؟ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس کیلئے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم ذہنی مریض کے گلے میں بدنامی کا طوق ڈال دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے جسمانی طور پر انسان بیمار پڑ سکتا ہے ایسے ذہنی بیماری بھی کسی کو لاحق ہوسکتی ہے۔ لہٰذا بیمار ہونے میں عار کیسا؟ ہمیں ذہنی مریضوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ وہ ہماری توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ذہنی بیماریاں عام جسمانی بیماریوں کی طرح ہیں جو علاج سے ٹھیک ہوجاتی ہیں اور مریض صحت یاب ہوکر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے‘ بدقسمتی سے یکے بعد دیگرے حکومتوں نے بھی صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی جو ہونی چاہئے اور ذہنی صحت کا معاملہ تو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا گیا ہے‘ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ذہنی صحت کے حوالے سے ہمارے ہاں کوئی پالیسی بھی وضع نہیں کی گئی ہے‘ اب وقت آگیا ہے کہ عوام اور حکومت دونوں کو ذہنی صحت کے معاملے میں عدم توجہی کا رویہ ترک کرنا ہوگا اور ذہنی صحت کے بارے میں اقدام اٹھانا اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ یہ کام جتنا جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہوگا۔