ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ دن بھر وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی۔ دھوپ نکل آتی تو کچھ گرمی لگتی لیکن پھر بادل چھا جاتے۔ مئی کا مہینہ تھا اورلندن کا موسم، جس کا پتا نہیں چلتا اور اس کی یہ ادا انگریزوں کے بہت کام آتی ہے وہ جب کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو موسم کے ذکر سے آغاز کرتے ہیں۔ ہمیں لنکنزان جانا تھا لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ ہم جانے پہچانے راستے بھول گئے۔ ہم یہاں کئی دفعہ آئے تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ لندن کا شہر بدلتا کم ہے۔ وہی راستے اور وہی عمارتیں۔ تاریخ سے اس قوم کی محبت کا یہ عالم کہ کسی پرانی چیز کو نہیں بدلتے جب تک مجبوری نہ ہو۔ اس لئے یہاں نہ کسی شاہراہ کا نام بدلتا ہے نہ کسی عمارت کے بیرونی نقشے میں تبدیلی کی اجازت ہے۔ ہم کو لنکنز ان تک پہنچے میں وقت لگا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں علامہ اقبال، قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور کئی نامی گرامی شخصیات نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر کہلائے۔ تیرھویں صدی میں شہر میں عام دنیاوی قانون کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی تو کامن لا یعنی عام قانون پڑھنے کیلئے شہر کے مضافات میں لنکنز ان، گریز ان، انر ٹمپل اور مڈل ٹمپل ادارے وجود میں آئے جو آج شہر کے مرکز میں واقع ہیں۔ قدیم لندن کا رقبہ بھی تو ایک مربع میل تھا جو آج چھ سو مربع میل پر پھیلا ہے۔ مشہور زمانہ لندن سکول آف اکنامکس اور کنگز کالج بھی اسی علاقے میں ہیں۔ہمیں کچھ پاکستانی نظر آئے اور اس طرف چل دیئے۔ سامنے دیکھا تو لنکنز ان کی تاریخی عمارت کھڑی تھی۔ آج یہاں پاکستان سوسائٹی کا سالانہ عشائیہ ہو رہا تھا۔پاکستان سوسائٹی 1951 میں قائم ہوئی۔ اس کے ممبران کی تعداد چار سو ہے جن میں پاکستانی اور برطانوی شہری شامل ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے شریک حیات ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ 1953 سے سوسائٹی کے شریک سرپرست 'پیٹرن ' رہے۔ دوسرے شریک سرپرست صدر پاکستان ہیں۔
ڈیوک 2017 میں سوسائٹی کے سالانہ عشائیے میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے ضعیف العمری کے باعث زیادہ تر تقریبات سے کنارہ کشی اختیار کی۔ وہ پچھلے سال اپنی سو سالہ سالگِرہ سے دو ماہ قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ سوسائٹی کے نئے شریک سربراہ کی تقرری ابھی نہیں ہوئی ہے۔ سوسائٹی کا مقصد پاکستان اور برطانیہ کو قریب لانے کیلئے کام کرنا ہے۔ یہ مختلف موضوعات پر لیکچرزکا بندوبست کرتی ہے۔ اس کے سالانہ عشائیے میں اہم شخصیات مدعو کی جاتی ہیں۔ اس سال اعزازی مہمان پروفیسر عبدالباری خان اور محترمہ ثانیہ صوفی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب انڈس ہاسپٹل کے سربراہ ہیں جسکی شاخیں ملک کے تیرہ شہروں میں نادار افراد کو طبی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔۔ محترمہ ثانیہ سیٹیزن فاؤنڈیشن یوکے کی چیف ایگزیکٹو ہے۔ یہ فاؤنڈیشن تعلیم کے میدان میں سرگرم عمل پاکستان سیٹیزن فاؤنڈیشن کی معاونت کرتی ہے۔پاکستان سوسائٹی کی طرف سے سالانہ جناح ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ ابھی تک یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں فن کی دنیا سے وابستہ ضیا محی الدین، ناداروں کی خدمت کرنے میں نام کمانے والے شعیب سلطان خان، کامیاب کاروباری شخصیت اور سماجی کاموں میں پیش پیش بیسٹ ویز کے بانی سر انور پرویز، فلاحی کام کرنے والی ڈاکٹر عذرا میڈوز اور ان کے شریک حیات پروفیسر پیٹرز میڈوز، تعلیم کے میدان کا بڑا نام ایچیسن کالج کے سابق پرنسپل جیفری لینگلینڈز اور پاکستان پر لکھنے والی مشہور مصنفہ وکٹوریہ سکوفیلڈ شامل ہیں۔ اس سال جناح ایوارڈ محترمہ شمع حسین کے نام کیا گیا۔ وہ پاکستان ٹیلیویژن میں پروڈیوسر کے طور پر کام کرتی تھیں برطانیہ آکر تعلیم کے شعبے سے منسلک رہیں اورسترہ سال کے طویل عرصے تک سوسائٹی کی اعزازی سیکرٹری بھی رہیں۔ پاکستان سوسائٹی کا سالانہ عشائیہ 1985 سے لنکنز ان کے گریٹ ہال میں ہوتا رہا ہے۔ ایک سواسی سال قدیم یہ ہال اپنی بناوٹ، سجاوٹ اور تاریخی اہمیت کے لحاظ سے لندن کے معدودے چند عمارتوں میں سے ہے۔ عشائیے میں کوئی دو سو مہمان شامل ہوئے۔ سوسائٹی کے چیئرمین سر ولیم بلیک برن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، دونوں ممالک کے تعلقات کو سراہا اور سوسائٹی کے سال رواں کے دوران کامیابیوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان جو سوسائٹی کے اعزازی صدربھی ہیں اپنی شریک حیات سابقہ سفیر لینا معظم کے ہمراہ تقریب میں شریک ہوئے۔ انہوں نے پاکستان سوسائٹی کی کارکردگی کو سراہا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ برطانوی حکومت کے وزیر برائے جنوبی ایشیا، اقوام متحدہ اور دولت مشترکہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ اس وقت برطانیہ میں سولہ لاکھ پاکستانی اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان سوسائٹی بھی اسی مقصد کیلئے قائم کی گئی تھی اور اس کا کردار قابل ستائش ہے۔