" ذہنی صحت کو اہمیت دیجئے" کا مرکزی خیال لئے عالمی دن 10 اکتوبر کو منایا گیا۔ کیا ہم ذہنی صحت کو اہمیت نہیں دیتے؟ درحقیقت ذہن سے متعلق امراض کے بارے میں شعور کی کمی نے جن معاشرتی رویوں کو جنم دیا ہے ان کی بدولت ایسی بیماریوں کو بار ندامت اور باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ذہنی امراض کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ ایک زمانہ تھا کہ جسمانی امراض بھی باعث عار سمجھے جاتے تھے لیکن جیسے جیسے طب کے میدان میں ترقی ہوتی گئی اور دوائیاں ایجاد ہوئیں تو جو امراض پہلے لاعلاج سمجھے جاتے تھے ان کا علاج دریافت ہوا، یہاں تک کہ کچھ بیماریاں تو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں جیسے چیچک اور کئی ایک ختم ہونے والی ہیں جیسے ملیریا اور پولیو۔ چونکہ انسانی دماغ بہت ہی پیچیدہ ہے، دس ارب خلیوں سے بنا قدرت کے اس لاجواب شاہکار کو سمجھنے اور اس سے متعلق بیماریوں پر تحقیق میں ایک مقام تک پہنچنے میں وقت لگا اس لئے ذہنی بیماریوں کوعرصہ دراز تک ناقابل علاج تصور کیا جاتا رہا۔ اب بھی کئی لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان امراض کا علاج زیادہ تر نشہ آورادویات سے کیا جاتا ہے جو ایک بار شروع کریں تو عمر بھر جان نہیں چھوڑتیں۔ یہ تصورات بے بنیاد ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ذہنی امراض جسمانی بیماریوں کی طرح کسی بھی فرد کو لگ سکتی ہیں۔ اس میں خاندان یا رتبے کا کوئی لحاظ اور نہ مریض کی اپنی مرضی یا غلطی کا کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیشتر بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ کبھی کبھی تو دوائی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ مریض باتوں یعنی کونسلنگ سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ بیشتر بیماریاں دوائی لینے سے رفع ہو جاتی ہیں مثلا انگزائٹی اور ڈپریشن تین مہینے کے علاج سے ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ شیزوفرینیا البتہ ٹھیک ہونے میں وقت لیتی ہے۔ مرگی اور دورے پڑنے کی بیماریاں جو عام طور پر لاعلاج سمجھی جاتی ہیں قابل علاج ہیں۔ چند بیماریاں ایسی ہیں جن کے لئے طویل عرصے تک یا تاحیات دوائی لینی پڑتی ہے لیکن یہ تو جسمانی امراض جیسے بلڈ پریشر اور ذیابیطس میں بھی ہوتا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج کل ایسی دوائیاں ایجاد ہوئی ہیں جو نشہ آور نہیں ہوتیں اور جنہیں لینے کے بعد مریض روزمرہ کے کام کاج کرسکتا ہے۔ کئی ایک تو دن کے وقت تجویز کی جاتی ہیں تاکہ رات کو مریض کی نیند میں خلل نہ آئے۔ بد قسمتی سے ذہنی امراض کے بارے میں لاعلمی اور شعور کی کمی نے جس احساس ندامت کو جنم دیا ہے وہ بے بنیاد اور نامناسب ہے۔ ایسے مریضوں سے پہلو تہی کرنا یا ان کا مذاق اُڑانے کا کوئی جواز نہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بناء پر ذہنی امراض میں مبتلا افراد کسی کو شریک راز بنانے اور ڈاکٹروں کے پاس جانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اکثر مریض تب ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں جب بیماری پیچیدہ صورت اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ غیر مناسب رویے اور دقیانوسی سوچ ذہنی صحت کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔کچھ عرصے سے سائیکائٹری کی دنیا میں انقلاب آیا ہے اور اب معالج انتظار کئے بغیر مریض کے پاس آئے گا اور اس کا علاج کرے گا۔ اب کئی ڈاکٹر حضرات مختلف مقامات پر یہاں تک کہ دور دراز علاقوں جیسے چترال جاتے ہیں اورمریضوں کا علاج کرتے ہیں۔اسی طرح عوام میں ذہنی صحت کے بارے میں شعور بھی اُجاگر ہوجاتا ہے۔عوامی شعور اُجاگر کرنے کی غرض سے افتخار سائیکاٹرسٹس ہسپتال کے سرپرست اعلی ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے اپنے فارم ہاؤس خان شیر گڑھی میں ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کو جمع کیا جن میں ڈاکٹر خالد مفتی سابق پرنسپل خیبر میڈیکل کالج، ڈاکٹر محمد سلطان سابق سربراہ سائیکائٹری ڈیپارٹمنٹ کے ٹی ایچ، پرفیسر ڈاکٹر محمد ادریس کے ٹی ایچ، پرفیسر ڈاکٹر بشیر احمد کے ٹی ایچ، پروفیسر ڈاکٹر محمد فراز ایل ار ایچ، ڈاکٹر عمران خان چیئرمین سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے ٹی ایچ، ڈاکٹر زرقا سحر کنسلٹنٹ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور ڈاکٹر فاطمہ روبی کنسلٹنٹ عبادت ہسپتال شامل تھے۔ انہوں نے ذہنی صحت پر مختلف پہلوؤں سے بات کی اور مذکورہ بالا حقائق کی طرف عوام و خواص کی توجہ دلائی۔ یہ تقریب ذہنی صحت سے متعلق شعور بیدار کرنے کے سلسلے میں ایک قابل تحسین قدم تھا۔