ستر سال ولی عہد رہنے کے بعد شہزادہ اپنی والدہ ملکہ الزبتھ دوئم کے انتقال پر 8 ستمبر کو برطانیہ کا بادشاہ (چارلس سوئم) بن گئے۔ ملکہ نے96 سال کی لمبی عمر پائی تھی اور ولی عہد کو70 سال کا لمبا عرصہ ملا کہ شاہی آداب سیکھے اورضروری تربیت حاصل کرے تاکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی ادا کرسکیں۔ وہ برطانیہ کیساتھ دولت مشترکہ کے دیگر چودہ ملکوں کا سربراہ مملکت بن گئے۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ جیسے بڑے ملکوں میں اکثریت بادشاہت کے حق میں ہے اور باقی ممالک میں بھی اس کی مخالف کوئی موثر تحریک دکھائی نہیں دیتی۔ اگر کوئی ملک اپنے لئے صدرمملکت کا عہدہ بہتر سمجھتا ہے تو تاج برطانیہ کی طرف سے اس پر کیا زبردستی ہو سکتی ہے؟ باربیڈوس پچھلے سال برطانیہ کی بادشاہت کو خیرباد کہ کر ریپلک بن گیا ہے۔
یہ ہے کہ ریپبلکن سوچ رکھنے والے افراد برطانیہ سمیت ہر جگہ موجود ہیں لیکن اکثریت اب بھی بادشاہت کے حق میں ہے۔ بزرگ نسل کی نظر میں تو ملکہ نہ صرف عہد رفتہ کی یادگار بلکہ تاریخ کا اہم کردار تھی۔ اس لئے ملکہ کی مقبولیت ان میں زیادہ تھی اور بادشاہ کی شاید کم ہو۔ بزرگوں کی بہ نسبت نوجوان نسل میں بادشاہت کی مقبولیت کم ہے۔ بادشاہ کو ان حقائق کا بخوبی ادراک ہے اور وہ یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ جو عوام نہیں چاہتے وہ نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ اس نے عوام پر بادشاہت کا بوجھ کم کرنے کے لئے رسمی طور پر شاہی خاندان میں شہزادہ یا شہزادی کا خطاب دس سے کم کرکے سات افراد تک محدود کر دیا ہے۔ اسی طرح ملکہ کوئی بیس سال سے اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا کر رہی تھیں۔ ایک دفعہ شاہی محل میں آگ لگنے سے نقصان ہوا تو ملکہ نے اپنے خرچ سے اسکی مرمت کی۔ ایسے اقدام سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ کم ہوجاتا ہے بلکہ عوام کی نظر میں بادشاہت کی پذیرائی بڑھ جاتی ہے۔
شہزادہ کے بادشاہ بننے کے بعد اس کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے لیکن شخصی آزادی میں کمی ہوئی ہے۔ وہ پاسپورٹ رکھ سکیں گے نہ ڈرائیونگ لائسنس، اس لئے کہ یہ دستاویزات بادشاہ کے نام سے جاری ہوتے ہیں اور بادشاہ کا اپنے لئے ان کا اجرا نہ کرنا ایک روایت بن گئی ہے۔ بادشاہ کوضرورت بھی پیش نہیں آئیگی۔ پہلے تو وہ ملک کی سڑکوں پر گاڑی نہیں دوڑائیں گے اور اگر فرض کریں اس نے دوڑائی بھی اور کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی تو اس کا چالان نہیں ہوسکے گا۔ کسی قسم کی قانونی کاروائی سے بادشاہ کو استثنیٰ حاصل ہے۔ تو پھر ڈرائیونگ لائسنس کی کیا ضرورت؟ اس کے علاوہ بادشاہ اگر بیرون ممالک سفر کرنا چاہیں تو کوئی اس سے پاسپورٹ طلب نہیں کرے گا یہاں تک کہ دولت مشترکہ سے باہر بھی کوئی ملک اسے نہیں روکے گا۔ آنجہانی ملکہ نے بھی سو سے زیادہ ملکوں کے بغیر پاسپورٹ کے دورے کئے تھے۔
پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنا تو کسی زحمت کا باعث نہیں بنتا لیکن جو کام بادشاہ کے لئے مشکل ہوگا وہ ریاستی امور پر برملا اپنی رائے کے اظہار سے اجتناب کرنا ہے۔ ولی عہدی میں بادشاہ کئی معاملات پر نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں بلکہ متعلقہ وزراء کو خطوط بھی لکھ چکے ہیں۔ وہ موسمیاتی تغیر کے سدباب کا بھرپور اوربرملا حمایت کرتے تھے اور پچھلے سال سکاٹ لینڈ میں موسمیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس کے موقع پر اہم کردار ادا کرکے اپنی شخصیت کی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ اب وہ بادشاہ بن گئے ہیں تو حکومت کے مشورے کا پابند ہوگا اور مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اگلے مہینے ہونے والی موسمیاتی تغیر پر عالمی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔ پہلے جب برطانیہ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو افریقی ملک روانڈا بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو شہزادے نے اس قدم کوغیرمناسب قرار دیا تھا۔ اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔
بحیثیت بادشاہ ان کو حکومت کی پالیسیوں پر تبصرے سے گریز کرنا ہوگا۔ اس کا درجہ بلند ہوا لیکن آزادی سلب کی گئی۔ بادشاہ ویسے کم گو ہے لیکن اتنا بھی نہیں جس قدر ملکہ تھی۔ ویسے بادشاہ وقت آنے پر شاہی آداب کو بالائے طاق رکھنا بھی جا نتے ہیں۔ ملکہ کا تابوت جب بکنگھم پیلس میں رکھا گیا تھا اور غم گساروں کا جم غفیر اُمڈ آیا تھا تو بادشاہ محل میں داخل ہوتے ہوئے گاڑی سے اُتر کر عوام میں گھل مل گئے اور ان سے ہاتھ ملاتے رہے، یہ اس سے پہلے کبھی کسی بادشاہ یا ملکہ نے نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فلاحی کاموں میں نہ صرف دلچسپی رکھتے تھے بلکہ حصہ بھی لیتے تھے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک ملازم نے کہا کہ ایک دفعہ رات کے وقت اس کو فون آیا، پرنس چارلس بات کر رہا تھا۔”میں نے ابھی ابھی خبر سنی ہے کہ پاکستان میں سیلاب آیا ہے۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟“ شہزادے نے استفسار کیا۔ یہ تھی انسانی اور فلاحی کاموں میں شہزادے کی دلچسپی کا حال۔ اب وہ ان کاموں کے لئے اتنا وقت نہیں دے سکیں گے۔ بحیثیت بادشاہ وہ سینکڑوں فلاحی اداروں کے سربراہ ”پیٹرن“ہونگے اور ہوسکتا ہے ان مقاصد کے لئے زیادہ کارآمد ثابت ہوں۔مختصر یہ کہ اب بادشاہ کو بدلتے ہوے حالات میں ایک نئے کردار کو نبھانا ہوگا جس کے لئے انہوں نے اچھی خاصی تربیت حاصل کی ہے۔