فرانس میں حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر کیا بڑھائی کہ ملازمین نے آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ شہر شہر ہنگامے، احتجاج اور مظاہرے! روشنیوں کے شہر پیرس میں تو حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوئم کو فرانس کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ ایسا کیوں ہے؟ اگر پنشن کے لئے عمر دو سال بڑھ گئی تو فرانس میں اوسط عمر بھی نو سال بڑھ چکی ہے۔ جب اسّی کی دہائی میں ریٹائرمنٹ کی عمر مردوں کے لئے 62 اور خواتین کے لئے 61 سال مقرر کی گئی تھی تب فرانسیسی شہریوں کی اوسط عمر 64 سال تھی جو آج 83 سال ہے۔ اس پر ایک مزدور لیڈر نے کہا کہ اگر عمر بڑھ جائے تو کیا اس کو ملازمت کی نذر کیا جائے۔ دراصل فرانس کے باسی زندگی کو بھرپور انداز سے جینے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ کام کو بھی سنجیدہ لیتے ہیں اور آرام کو بھی۔ یہ اپنی آزادی پر بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے تو فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال نے کہا تھا کہ اس ملک پر کوئی کیسے حکومت کرے جہاں صرف پنیر کی دو سو چھیالیس اقسام ہوں۔ مطلب یہ کہ فرانس مختلف الخیال لوگوں کی سرزمین ہے اور اختلاف رائے جمہوری نظام کا حسن ہے۔ آزادی، برابری اور بھائی چارہ فرانس کی جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں جس پر اس قوم کو بجا فخر ہے۔ آج پنشن اصلاحات نے صدر ایمونوئیل میکرون کی جمہوری سوچ کو بھی عوامی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ وہ پنشن اصلاحات کا بل پارلیمان سے پاس نہ کراسکا تو ایک صدارتی حکم کے ذریعے اسے نافذ کردیا۔ کئی لوگوں کی نظر میں یہ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 68 فی صد عوام ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے خلاف ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ انتخابی مہم کے دوران صدر میکرون نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال تک بڑھا دینگے۔حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ عمررسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کام کرنے والے کم ہو رہے ہیں۔ 2000 ء میں دو کام کرنے والے تھے اور ایک پنشن لینے والا، 2070 میں ایک پنشن یافتہ کے لئے ایک کام کرنے والا رہ جائیگا۔ پھر یہ نظام نہیں چلے گا۔ پھر یہ کہ فرانس میں ریٹائرمنٹ کی عمر ہمسایہ ممالک سے کم ہے۔ یورپین یونین میں یہ عمر 64، برطانیہ میں 66، جرمنی میں 67 اور سوئیڈن میں 69 سال ہے۔ پھر فرانسیسی ملازمین سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ فرانسیسی ساٹھ سال سے ستر سال کی عمر کو زریں دہائی کہتے ہیں۔ اس عمر میں وہ اولاد کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکے ہوتے ہیں، ماں باپ جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں، گھروں کی اقساط پوری کر چکے ہوتے ہیں اور ملازمت کے بکھیڑوں سے آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے یہی عمر ہے جب وہ زندگی اپنے لئے جیتے ہیں۔ہم اہل فرانس کے جلد یا بدیر ریٹائرمنٹ کے بارے میں کوئی رائے دینا نہیں چاہتے، یہ ان کا کام ہے، لیکن وہاں پنشن پر جانے والوں کو رشک کی نظر سے ضرور دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہم ریٹائر نہیں ہونا چاہتے۔ کبھی کبھار افوا ہ اُڑتی ہے کہ حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا رہی ہے تو ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جب خیبر پختونخوا میں ریٹائر ہونے کی عمر 60 سے 62 سال کر دی گئی تھی تو بزرگ ملازمین خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ کئی ایک نے تو مٹھائی بھی تقسیم کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ریٹائر ہونے کی فکر ان کو ہوتی ہے جن کا پنشن سے گزارہ نہیں ہوتا۔ بیمار پڑ جائے تو علاج کے لئے وسائل نہ ہوں، کہیں جانا چاہے تو جیب خالی ہو۔ مہنگائی ہوجائے تو کہیں سے مدد نہ ملے۔ اگر یہ مسائل نہ ہوں تو ریٹائر ہونے سے خوف کیسا؟ کل آنی ہو تو آج آجائے۔