برطانیہ میں آئینی اور پارلیمانی اقدار اور روایات لکھ کر محفوظ نہیں کی گئی ہیں لیکن پھر بھی عام طور پر ان کی وضاحت میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ یہاں کا غیر تحریر شدہ دستور زیادہ تر ان روایات کی ارتقائی شکل ہے جن کو یہاں کے عوام نے برسہابرس زندہ رکھا ہے۔ ایک پارلیمانی روایت یہ ہے کہ وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں نہیں لائی جاتی بلکہ یہ برسر اقتدار جماعت خود اپنے اندرونی طریقہ کار کے مطابق نمٹا لیتی ہے اور اس معاملہ سے دوسری سیاسی جماعتیں الگ رہتیں ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف حالیہ اعتماد کا ووٹ اس کی مثال ہے۔ وزیراعظم پر اعتماد یا عدم اعتماد جاننے کیلئے رائے شماری 6 جون کو ہوئی۔ اس دن صبح 8 بجے برسر اقتدار کنزروٹیو پارٹی کے متعلقہ منتخب کمیٹی جو 1922 ’کمیٹی‘ کہلاتی ہے، کے سربراہ، سر گراہم بریڈی، نے اعلان کیا کہ 54 کنزروٹیو اراکین پارلیمان نے اپنی پارٹی کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم بورس جانسن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی رکن چیئرمین کو خط لکھ کر اپنی رائے بتا دیتا ہے۔ اگر پارٹی کے کل ارکان کا 15 فیصد اپنی جماعت کے قائد پر عدم اعتماد کا اظہار کرے تو پارٹی کے سب ارکان کی رائے لی جاتی ہے۔
54ارکان کنزروٹیو پارٹی کے کل ممبران کا 15 فیصد بنتے ہیں۔ اس لئے سر بریڈی نے اعتماد کے ووٹ کیلئے شام 6 سے 8 بجے کا وقت مقرر کیا۔ اس دن وزیراعظم معمول کے فرائض انجام دیتے رہے جس میں لتھوینیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات بھی شامل تھی۔ اس نے اتنا کیا کہ اپنی جماعت کے پارلیمانی ارکان کو انفرادی طور پر خطوط لکھے اور 4 بجے ان سے ملاقات کی۔ اوران کو آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کو جتوانے کی امید دلا کر اپنے حق میں ووٹ دینے کی درخواست کی۔ وزیراعظم کچھ عرصے سے تنقید کی زد میں رہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری رہائش گاہ پر کووڈ وبا کے دوران لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوے پارٹیوں میں شرکت کی ہے۔
یاد رہے کہ ان دنوں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے اور خاندان سے باہر کسی سے ملنے پر پابندی تھی۔ جب لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی خبریں طشت ازبام ہونے لگیں تو وزیراعظم نے پارلیمان میں بیان دیا کہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے۔ بات بڑھنے لگی تو انہوں نے توجیہات پیش کیں۔ پارٹیاں ہوئیں تھیں، مجمعے لگے تھے۔ اسں نے بتایا کہ ایک ساتھی کو الوداع کہنے چند رفقا کار جمع ہوئے تھے تو وہ بھی شامل ہوئے کہ ایک بار ان کی سالگرہ تھی تو چند دوست جمع ہوئے جنہوں نے بقول ان کے انہیں سرپرائز دیا ۔اسے پیشگی اطلاع نہیں ملی تھی۔ پولیس نے تفتیش کی اور قانون شکنی کے مرتکب افراد کو جرمانہ کیا۔ وزیراعظم سے رعایت کی گئی نہ وہ اپنی اثرورسوخ سے قانون کے شکنجے سے بچ سکے۔
انہوں نے بھی پچاس پونڈ جرمانہ ادا کیا۔ لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اس کے بعد ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار، سوگرے، نے تحقیقات کیں اور وزیراعظم کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا۔ اس کے بعد وزیراعظم کے خلاف احتجاج زور پکڑ گیا اور نوبت اعتماد کا ووٹ لینے تک آگئی۔ اس سلسلے میں رائے شماری دو گھنٹے میں مکمل ہوئی۔ ایک گھنٹہ ووٹوں کی گنتی کیلئے مختص تھا۔ 9 بجے نتیجہ آیا۔ وزیراعظم 148 کے مقابلے میں 211 ووٹوں سے جیت گئے۔ رائے شماری سے پہلے کئی پارٹی اراکین نے اپنے قائد کی حمایت کا اعلان کیا اور کئی نے کھل کر ان کی مخالفت کی۔ پارٹی کے دو عہدیدار وزیراعظم کے خلاف رائے دینے سے پہلے مستعفی ہوگئے حالانکہ رائے شماری خفیہ ہونی تھی اورکسی رکن کے ووٹ کا پتہ نہیں چلنا تھا لیکن اصول اصول ہیں۔
وزیراعظم کے حق میں اور مخالفت میں بیانات آئے لیکن کسی نے اپنے مخالف رکن کو برا بھلا کہا نہ اسکی ذات پرحملہ کیا۔ اختلاف رائے کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور دوسرے کی رائے کا احترام کرنا تو جمہوریت کا حسن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں آج تک کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی ہے لیکن جن وزائے اعظم کے خلاف اعتماد کی تحاریک لائی گئیں انہوں نے پھر پانچ سال بھی پورے نہیں کئے۔
مارگریٹ تھیچر اعتماد کا ووٹ جیت گئیں لیکن چند ہی گھنٹوں میں مستعفی ہوگئیں۔ ٹریسا مے نے چھ مہینے سے پہلے استعفے دیدیا۔ موجودہ وزیراعظم بورس جانسن پرعزم تو ہیں لیکن مشکلات کا پہاڑبھی دیکھ رہے ہیں۔ گیس، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، معیشت کی نمو کم ہوئی ہے اور سال رواں میں افراط زر کا بھی 10 فیصد سے اوپر جانے کا خدشہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن حکومت کی ناؤ پار لگاتے ہیں یا بیچ منجدھار قیادت کا بار کسی اور کے گلے ڈال کے سیاسی عروج سے وقتی یا کل وقتی پسپائی اختیار کرتے ہیں۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔