اداسی کی گھڑی

 پہلے تو چھینک آتی تھی تو چلو گزارہ ہو جاتا تھا ۔ کوئی کچھ نہ کہتا ۔ مگر اوپر تلے دو اور پھرتین چھینکیں آتیں تو پاس بیٹھنے والاکہتا اوہ کسی نے یاد کیا ہے ۔مگر اب کے تو کیفیت کچھ اور ہے ۔کہتے ہیں چھینک ہی نہ آئے‘ مگر انہیں معلوم نہیں کہ چھینک کا آنا اپنی جگہ قدرت کا ایک تحفہ ہے ‘جس کے جواب میں ہم الحمد للہ کہتے ہیں ‘سنا ہے سر میں جو بلبلے ابھرتے ہیں اور رسولی میں تبدیل ہونےوالے ہوتے ہیں چھینک کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں‘ بہر حال کوئی یاد نہ ہی کرے تو اچھا ہے‘کیونکہ اگر کسی نے یاد کیا تو دل میں کوئی نہ کوئی چہرہ تو ابھرے گا کہ فلاں نے یاد کیا ہوگا۔ سو اس کی طرف دل کچھا چلا جائے گا ۔ان کو فون ہوگا پھر ان کافون آئے گا پھر وہ لاک ڈا¶ن کے گھریلو قرنطینہ میںخود بھی آنا جانا شروع ہو جائیں گے‘یوں وائرس پھیلتا پھیلتاکہاںسے کہاں فتوحات کرتا ہوا اپناسلسلہ جاری رکھے گا۔ اسلئے اب تو نہ چھینک اچھی ہے اور نہ ہی کھانسی ہونا درست ہے ‘بلکہ عین ممکن ہے کہ کچھ دنوں بعد ہدایت میں کہا جا ئے کہ اگر ہچکی لگ جائے تو فوراً کورونا وارڈ کی طرف رجوع کریں ‘مگر یہاں تو جو افواہیں زیر گردش ہیں ان کی وجہ سے ٹیسٹ پازےٹیو آنے سے ڈرتے ہیں‘کیونکہ جس کا سنو اسکا کوروناٹیسٹ مثبت ہی آتا ہے اب تو پتا ہی نہیںکہ جو بخار بندے کو چڑھا وہ کون سا ہے ۔

عام سا بخار ہے کہ ملیریا ہے یا پھرٹائیفائیڈ ہے یا پھر کہیں خدا نے کرے ڈینگی ہے ‘کیونکہ ان دنوں تو ڈینگی کے وار بھی اوچھے پڑنے شروع ہو گئے ہیں‘گویا ہم چاروں طرف سے ایک ان دیکھے انجانے نقاب پوش دشمن کے نرغے میں ہیں ‘کیونکہ ڈینگی اور کورونا کی علامات میں کافی مشابہت ہے ‘اب تو اتنا ڈرا دیا گیا ہے ذرا سا جسم میں کہیں درد اٹھے یا شانوں میں کچھا¶ محسوس ہو تو کرکٹرشاہد آفریدی یاد آتے ہیں جو اسوقت گھر مےں قرنطینہ ہیں‘مگر وہ کورونا کے مریض ہو کر بھی جلسے کرنے اورتقریریں کرنے میں لگے رہے ‘کہاجسم میںدرد محسوس ہورہا تھا ‘ٹیسٹ کروایا تو کورونا کی شکایت سامنے آئی ۔ پھر اس کے بعد ان کو مشورہ کاروں نے تنہائی اختیار کرنے کو کہا ۔وہ تب سے اب تک گھر ہی میں پناہ گزین ہیں‘کھانسی بھی کورونا کی کی علامات میں ہے او رچھینک اور بخاربھی جسم میں دردتنا¶ اور کیا کچھ نہیں جو بھلے چنگے آدمی کو اس سے ڈراتا ہے کہتے ہیں اس میں خون گاڑھا ہوجاتا ہے‘ سوجب خون گاڑھا ہو تو فالج گردوں کافیل ہونا اوردل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ‘کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ بیان فرماتا ہے‘اب مرغی کا معاملہ لیں‘ پنجاب سے پکی خبر آئی تھی کہ مرغیو ںمیں کورونا کے جراثیم پائے گئے ہیں ‘عنقریب پولٹری فارم سروس بند ہو جائے گی۔

پنجاب سے مرغیاں آنا بند ہو جائیںگی‘ہم نے کہا چلو فائدہ ہوگا مرغیاںپھر سے سستی ہوجائیں گی‘ مگر پھر ٹی وی پر سرکاری اشتہار آنے لگے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔مرغی کھاناتو کوروناکی بیماری کو قریب نہ آنے دینے کے سلسلے میں بہت بہتر ہے کہ انسان میں طاقت آتی ہے اور اس کا اندرونی جسمانی نظام بیماریوں کودور بھگانے میں زیادہ کام کرنے لگتا ہے‘بلکہ انہوں نے تو انڈا بھی کھلے عام کھانے پر زور دیا حالانکہ ہسپتال کے ذرائع دل کے مریضوں کو انڈہ کھانے سے روکتے ہیں ۔’ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے۔آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا‘ کس کی سنیں کس کی نہ سنیں‘بس ایک خوف کی فضا ہے ‘ہر طرف کورونا کے ہاتھوں لوگ نالاں ہیں مگروہ پریشان ہےں جو جانتے اور واقفیت رکھتے ہیں‘ مگر جو جان کر بھی انجان بن کر جیسے انجانے میںکر رہے ہوںنہ تو ماسک پہنتے ہیں اور نہ ہی دستانے چڑھاتے ہیں‘خوب مزے میں ہیں انہیں تو کوئی ڈر ہی نہیں ‘کیا کہیں بس ایک ملغوبہ سا ہے ہدایات کا ایک مکسچر ہے آسانی میں اچار کہہ لیں ایک اچار ہے جو ڈالا جا رہا ہے ‘جس وقت نیوز چینل لگا¶ کورونا کی خوفناکی کاذکر ہے۔

‘جس سے دہشت کی ایک فضا جنم لے چکی ہے ‘میں توکہتا ہوں کمزور دل افرادٹی وی تو ضروردیکھیںمگر خبریں دیکھنے سے گریز کریں ‘کیونکہ وہاںتو دل کو دھڑکانے والی خبروں کے سوا کچھ نہیں‘اب کہتے ہیں کہ آئندہ ماہ تو ارضِ وطن میں کورونا کے کیس لاکھوں کے حساب سے ہو ں گے‘ ہائے ایک مہینے میں اتنے یار مرے اتنے واقف کار انتقال کر گئے کہ اب دل کو ایک اداسی نے آن گھیرا ہے یہاںتو ایک کنفیوژن ہے الجھن ہے کیونکہ خود اس وائرس میں ماسک پہننے پر بھی سب متفق نہیں ۔کوئی آکر سوشل میڈیاکی سکرین کو داغدار کرتا ہے اور اوٹ پٹانگ فرما جاتا ہے ۔کہتا ہے ماسک پہننے سے دم گھٹتاہے آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے جو کورونا وائرس کو دعوت دیتی ہے ‘جب پھیپڑوں میں آکسیجن نہیں جائے گی تو کورونا کی بیماری آئے گی۔واہ رے واہ۔