مغرب اور مشرق کے کلچر کی بہت سی تفریقوں میں سے ایک فرق بزرگوں کی بڑھاپے میں زندگی گزارنے کا بھی ہے ہم سب جانتے ہےں کہ ہم اہل مشرق اپنے ماں باپ نانا نانی دادا دادی کو اپنے گھروں میں اپنا بزرگ اپنا مشر کہہ کے اپنے دل سے قریب ترین رکھتے ہےں اور بدلے میں ڈھیروں دعائیں لیتے ہےں اور اہل مشرق کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اگر ہم بزرگوں کی عزت تکریم اور خیال رکھےں گے تو اللہ پاک ہم سے راضی ہوگاہماری مشکلات حل ہوں گی اور کل ہمارے بڑھاپے میں بھی ہماری نئی نسل ہمارے ساتھ وہی سلوک کریگی جو آج ہم اپنی بزرگ نسل کےساتھ کررہے ہےں اہل غرب کی ثقافت مختلف ہے وہ اپنے بزرگوں کو 65-70سال کی عمر کے بعد اولڈ ہومز یعنی بزرگ کے بنے ہوئے گھروں میں داخل کروا آتے ہےں جہاں جوان اور صحت مند افراد تنخواہوں کے عوض انکی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہےں ان کی خوراک صحت دوائی میں اوقات کار کا تعین اور خیال رکھتے ہےں جب سے کورونا کی وباءنے مشرق اور مغرب کے مکینوں کا شکارکرنا شروع کیا ہے اور کسی دوائی کے نہ ہونے کی صورت میں دنیا بھر کے لوگ اور حکومتیں جتنی بے بسی اور بے چارگی کا شکار ہےں اور اپنے پیاروں کے جنازے تک بھی اٹھانے سے گھبرا رہے ہےں ایسی مثال ماضی کی وباﺅں سے پتہ چلتی ہے کینیڈا بھی جہاں میں رہتی ہوں کورونا وبا کے چنگل میں ہے ‘ بیماروں کی تعداد لاکھوں کے نمبر کو چھورہی ہے اور مرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچی ہے ہر روز مریض بڑھتے ہی چلے جارہے ہےں آفرین ہے حکمرانوں پر کہ ایمرجنسی کے اس وقت میں پرائم منسٹر کینیڈا اور صوبائی پریمیر ¿ یا وزیراعلیٰ اور گورنر کہہ لیں روزانہ کی بنیاد پر اپنی قوم کو پندرہ منٹ کے خطاب میں وباءسے آگاہی دیتے ہےں۔
ان کے ساتھ ان کی کابینہ کے چند ارکان اور میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہےں اخباری نمائندے روزانہ ان سے اپنے سوالات کے ذریعے عوام کی مزید رہنمائی کرتے ہےں ان ممالک میں سوشل میڈیا ‘پرنٹ میڈیا اورالیکٹرانک میڈیا ہم سے کہےں زیادہ ایڈوانس ہےں عوام کی تعلیم سو فیصد ہے لیکن وزیراعظم اور تمام صوبائی ارباب اختیار اس کے باوجود بھی اپنا فرض مارچ کے مہینے سے نبھا رہے ہےں شاید انسان کا کھانا بھول جائے گا لیکن ان کا روزانہ کی بنیاد پرخطاب اور عوام کی دلجوئی عوام کی امداد کرنا آج کی تاریخ تک جاری ہے اور جب تک ملک میں وباءکی ایمرجنسی موجود ہے یہ خطاب جاری رہے گا اس وباءمیںبزرگوں کی اموات کا ذکر کرتے ہوئے انتاریو کے گورنر کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھرگئیں اب تک پانچ اولڈ ہومز کے 1538بزرگ شہری فوت ہوگئے ہےں کورونا کی وباءان ہومز میں کس طرح پہنچی تحقیق جاری ہے لیکن جب ان بزرگوں کے گھر جنازوں کے جانے سے خالی ہونے لگے تو اک شوروغوغا مچ گیا‘ فیڈرل حکومت لبرل پارٹی کی ہے اور انتاریو میں اپوزیشن کی پارٹی حکومت کررہی ہے فیڈرل نے اپنے طور پر انکوائری کرنے کےلئے بیشمار اموات کی ذمہ داری طے کرنے کےلئے فوج کو طلب کرلیا ‘ یہ فوجی جوان ہر ایک اولڈ ہوم میںرات دن بیٹھ گئے اور انہوں نے 152میں سے وہ اولڈ ہومز جن کے سارے مکین اب قبرستان آباد کربیٹھے ہےں کی مکمل انکوائری کرنا شروع کردی وہاں چند لوگ ہی زندہ باقی تھے ان سے پوچھ گچھ اور وہاں کے کمروں کی حالت دیکھ کر فوج کے جوان بھی اپنے دکھ پر قابو نہ پاسکے ان کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ وہ اس وقت حیران اور پریشان ہوگئے جب ان بزرگوں کے کمروں کو کیڑے مکوڑوں سے بھرے ہوئے دیکھا کا کروچز کی آبادی ہرکمرے میں تعداد کے لحاظ سے اتنی بڑھ چکی تھی جیسے کئی عشروں سے یہاں کسی صفائی والے نے جھانک کر نہےں دیکھا ۔کئی بزرگ فرش پر لیٹے تھے۔
وہ بستر تک پہنچ نہےں رہے تھے ‘اولڈ ہومز کا سٹاف کئی مہینے پہلے ان بوڑھوں کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ چکاتھا وہ زائد المیعاد دوائیاں کھا کھا کر مزید بیماریوں کا شکار ہوچکے تھے ان کو جو میڈیکل ایڈ مہیا کی جاتی تھی وہ ناقص اور ناکارہ اور Expire تھی جو بزرگ زندہ تھے اور مرنے کے قریب تھے ان سے بات کرکے پتہ چلا کہ وہ اپنے آپ کو قید خانے میں پڑا ہوا سمجھتے ہےں اور بتاتے ہےں کہ سٹاف ممبرز ان کو بستر سے اٹھاتے اور لٹاتے ہوئے گندی زبان استعمال کرتے تھے اور دھکے دیتے تھے یہ تمام بزرگ ہائی بلڈ پریشر شوگر دل اور گردوں کے مریض بھی تھے اور آبادی کا سب سے زیادہ کمزور ترین طبقہ تھے اپنے بچوں نے تو ان کو نظر انداز کیا ہواہی تھا حکومت ان اولڈ ہومز کو 4.3بلین ڈالر امداد ہر سال دیتی تھی جو 79000 بزرگوں کا خیال رکھنے کےلئے تھی وہ جن میںسے ہر سال کئی لوگ ان ہی ابتر حالات سے مرجاتے تھے یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ بیماری اور عمر کی وجہ سے مرگئے ہےں لیکن دراصل جو وقت ان کو آرام دینے کا اور خیال رکھنے کا تھا وہ ان گندے ترین حالات کا شکار ہوکر وقت سے پہلے مرجائے تھے کورونا وبا کی وجہ سے جب کسی ایسے شخص کی اولڈ ہوم میں آمد ہوتی جسکا ٹیسٹ مثبت تھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ان بزرگوں تک وہ جراثیم نہ پہنچتا جو کمزور ترین اور ابتر ترین حالات میں پڑے ہوئے تھے اور پھر اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو پانچ اولڈ ہوم کے جنازوں اور کفن دفن کو سنبھالنا مشکل ہوگیا جب انکوائری کی گئی تو ایسی ایسی اندوہناک کہانیاں باہر آگئیں کہ وہ رشتہ دار اور سگی اولادیں جو ان اولڈ ہومز میں اپنے پیاروں کو کب کے چھوڑ کر رنگ و نور کی دنیا میں کھو چکے تھے اب زاروقطار رو رو کر اخباری نمائندوں کو اپنی محبتوں کی جھوٹی کہانیاں سنا رہے تھے۔
ہوسکتا ہے محبتوں اور الفتوں کی یہ کہانیاں سچی ہوں لیکن اپنے پیاروں کو چھوڑ کر عشروں تک خبر بھی نہ لینے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے حکومت اپنے آپ کو گناہ گار قرار دے رہی ہے ڈگ فورڈ گورنر انتاریو نے کہا کہ اولڈ ہوم میں ہونےوالے واقعات قابل نفرت ہےں اور قابل مذمت بھی ہےں جو دل کو چیر دینے کے برابر ہےں اور درد ناک ہےں ان کے مطابق ان کے پاس ایسے کوئی قابل نفرت وقابل مذمت الفاظ نہےں ہےں کہ وہ بیان کریں کہ انتاریو کا آج سے تیس پینتیس سالہ اولڈ ہوم کا نظام جو دنیا کا بہترین نظام تھا آج اتنا بدترین ہوچکا ہے کہ اس نقصان کو شمار کرنے اور بیان کرنے کےلئے حکومت کے پاس صرف ملامت کے الفاظ کے سوا کچھ بھی نہےں کیا ہم بلین ڈالر دے کر ان بزرگوں کو بھلا ہی بیٹھے کہ جنہوں نے کینیڈا کی ترقی میں اپنی جوانی میں برابر کا حصہ ڈالا تھا رپورٹ جو کہ دل دہلانے والی ہے بتایا گیا ہے کہ اولڈ ہوم کو چیک کرنے کےلئے صوبے میں سینکڑوں کی تعداد میں انسپکٹر تھے لیکن ان انسپکٹر کے معائنے جوں کہ پہلے سے طے شدہ ہوتے تھے اسلئے اسی مقررہ وقت میں اولڈ ہومز کی وقتی طور پر ٹھیک کرلیا جاتا تھا لیکن ان کی نظریں اتنی دور بینی نہ تھیں کہ اندر کا حال جان پاتیں اب جب کہ فوج رات دن وہاں جاکر بیٹھ گئی تو اصل حالات اور آہ وفریاد اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس رپورٹ کا نام ہی Neglect رکھ کر پیش کردیاگیا ‘ سرکاری اولڈ ہوم بلین ڈالرز لے کر بھی بزرگوں کا خیال نہ رکھ سکے اور پرائیویٹ اولڈ ہوم جہاں اخراجات دے کررشتہ دار اور بچے اپنے بوڑھوں کو داخل کرواتے ہےں ان کے حالات قدرے بہتر ہےں افسوس جو وقت اس بڑھاپے میں سب سے زیادہ آرام دہ ہونا چاہئے کینیڈا کے اولڈ ہومز میں ان بزرگوں پر زندگی کو تنگ کردیاگیا اور آخر کار وہ اپنی ابدی پناہ میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔