ہمارے والد کے ایک دوست ہوا کرتے تھے‘ خدا ان کو سات جنتیں نصیب کرے ‘کیا بیبا آدمی تھے‘ شیخ ظہور الہٰی قمر‘ بہت پڑھ لکھے‘ مگر ان معنوں میں نہیں کہ ان کے پاس ڈگریاں تھیں ‘وہ سادہ بی اے تھے اور پرانے زمانے کے تعلیم یافتہ تھے‘ کیا رائٹنگ تھی اور کیا ہینڈ رائٹنگ تھی‘ افسر تک ان کے انگریزی کے انداز کے قائل تھے‘ مگر ان کو چانس نہیںمل سکا کہ وہ کہیں افسر بن جاتے ‘ پرنٹنگ پریس پشاور میں سرکاری ملازم تھے‘ بے بہا شخصیت کے مالک تھے‘ ساری عمر تین کمروں کے چھوٹے سول کوراٹر میںرہے ‘ علم کے لحاظ سے اس زمانے میں کہ علم کی قدر دانی نہ تھی انگریزی جانتے تھے اور خوب جانتے تھے‘انگریزی رسالے پڑھتے تھے‘ تادمِ آخر کلین شیو کرتے تھے‘ہمیشہ پینٹ شرٹ میں رہتے اور اپنی وضع قطع انگریزوں جیسی بنا کر گھومتے تھے‘ گلے میں سکارف پہنتے اور ہر حال میں ہر تقریب میں اسی سٹائل میں رہتے ‘ انھوں نے آج سے تیس برس پہلے جو باتیں کی تھیں وہ مجھے آج یاد آتی ہیں تو دل میں افسوس کی چٹکیاں کٹنے لگتی ہیں ‘ اس لئے کہ کیسے کیسے لوگ ہم سے اچانک ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاتے ہیں ‘اگر وہ زندہ رہ جاتے تو کیاہو جاتا‘مگرہر ایک نے اپنے وقت پر واپسی کی راہ لینا ہوتی ہے ‘ آنا تو نمبر پر ہے مگر جانا بغیرنمبرکے ہوتا ہے ‘فرمایا کرتے تھے آ ج سے تیس سال کے بعد وہ سینئر لوگ جو اس وقت زندہ ہیں ان میںسے ایک بھی دنیا میں نہیں ہوگا‘ سینئر لوگوں کی یہ لاٹ ختم ہو جائے گی‘ آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتاہوں تو واقعی ان کے سمیت اس وقت دنیا میں ایک بھی موجود نہیں ۔
میرے والد کی عمر کے سب لوگ ان کے دوست اور رشتہ دار اب اس دنیائے فانی میں نہیں ہیں‘ سوچتا ہوں کہ اب سے تیس سال کے بعد موجودہ سنیئر نسل کہاں ہوگی تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے ‘ خدا سب کو جیتا رکھے اور لمبی عمر دے‘ مگر آئے روز اخباروں میں انتقال پُرملال کی خبریں دیکھ کر کلیجہ کٹ جاتا ہے‘ پھر کورونانے اموات کی اس رفتار کو چار گنا زیادہ کر دیا ہے ‘پھر آنے والے دنوں میں اس رفتا رمیںدس گنا اضافے کاخدشہ ہے ‘مرحوم اس زمانے میں انگریزی رسالے پڑھاکرتے تھے‘ انھوں نے کہا تھاآنے والے زمانے میں موسم کے رنگ ڈھنگ بدل جائیں گے ‘ جن میدانی علاقوں میں صرف بارش ہوتی ہے وہاں برف باری ہوا کرے گی‘گرمیوں میں سردی اور سردیوں کے مہینوں میں گرمی ہوگی‘ مگر اب معلوم ہواکہ واقعی ایسا ہوتاہے ‘آج ان کی باتیںیاد آتی ہیں تو دل میں ایک محرومی کا احساس ہوتاہے کاش ان کے پاس بیٹھ کر ان کے تجربات زیادہ سے زیادہ سنے ہوتے ان کی ذہانت کی باتوں کو پلے سے باندھا ہوتا اوران پر عمل کرتا‘کیونکہ پرانے وقتوں میں تو آج کی طرح سکول کالج نہ تھے ‘ اقبال نے کیا اچھا کہا کہ ”یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی۔
سکھائے کس نے اسماعیل ؑکوآدابِ فرزندی‘یا ان کا ایک اور شعر ” دیدہ بینا بھی کر خدا سے طلب‘ آنکھ کانور دل کانور نہیں“ اقبال ہی نے کہا ہے ” خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ او رنہیں ‘ ترا علاج نظر کے سوا کچھ اورنہیں ’“ شاید یہ انگریزی رسالوں کی بدولت تھا کہ انھیں وہ وہ معلومات حاصل تھیںجو اب بھی ڈگری یافتہ لوگوںکو مہیانہیں ہیں‘ہمارے معاشرے کا دستور ہے کہ ہمیں اچھے لوگوں کی اور ذہین انسانوں کی کوئی قدر نہیںہوتی ‘مگر جب وہ اچانک مر جاتے ہیں تو ہم بعد میں پشیمانی کے عالم میں اپنے آپ کو کوسنے دیتے ہیں‘ہم اپنے کھیل تماشوں میں اور دولت اکٹھی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں او ردوسری طرف ہم سے وہ آدمی قضاہو جاتا ہے ‘ ہمیں اس وقت اس خزانے کی اہمیت کا احساس ہوتاہے جب اس قسم کے لوگ ہمارے درمیان میں سے چپکے سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں‘ میں یہ کہتا ہوں کہ آج جو لوگ ہمارے آس پاس موجودہیں اور ذہانت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں ان کی قدر کریں ‘ خواہ وہ کسی بھی فیلڈ میں ماہر ہیں روحانیات کیو ںنہ ہو ان کے نزدیک بیٹھیں اور ان کی باتیںسنیں ‘کیونکہ بعض لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں مگر ہم لوگ انھیں پڑھ کر سکول کالج سے ڈگری لیتے ہیں ‘ وہ ڈگری یافتہ لوگوںسے زیادہ جینئس ہو تے ہیں ‘نذیر تبسم کا شعرہے” زمانے قدر کر ان کی کہ اب شہر پشاور میں ‘بزرگوں کی نشانی بس یہی دوچار چہرے ہیں“‘اس وقت جولوگ پشاور کی رونق ہیں اور معاشرے کے ماتھے کاجھومر ہیں وہ قضا ہو گئے تو ہم مجبور و مقہور رہ جائیں گے‘ کون آگے کون پیچھے اس کافیصلہ تو قدرت کے پاس ہے مگر جو نظر آتا ہے اسکے مطابق تو ہمیں ان سینئر لوگوں کی قدرانی کرنا ہوگی۔