تنہائی کازہرپیناہوگا

 اگر بھلا چنگا نوجوان بھی ہواور گھر کے قرنطینہ میں روپوش ہو جائے تو چودہ دن کےلئے اس سے اپنے گھر والے بھی نہیں ملتے ‘آخر کار وہ رونے پہ آ جاتا ہے کیونکہ دور کے عزیزوں کو تو چھوڑیں اپنے گھر والوں کی یاد بھی اسے ستاتی جو اسی گھر میں اور ساتھ والے کمروں میں پائے جاتے ہیں‘ پاکستان کی آدھی آبادی کو تو اسوقت کورونا ہوگا کیونکہ آپس کا میل جول ختم کرنابہت مشکل ہے قرنطینہ میں پڑا انسان موبائل فون پر کسی سے کتنی باتیں کرے گا‘ کیونکہ جب تک کسی پیارے کےساتھ آمنے سامنے نہیں ملے گا خواہ بھائی ہو بہن ہو بیوی یا بچے ہوں اسکے دل کو تسلی نہیں ہوتی۔تنہائی تو بہت خراب چیز ہے ‘مگر پرہیز ہے تو ظاہر ہے کہ کسی بیماری کےلئے ہوتا ہے کہ شفا مل جائے ‘سو تنہائی میں تو جانا پڑے گا‘تنہائی کا زہر پینا ہوگا اس طرح جینا ہوگا لیکن انسان ہی واحد مخلوق ہے جو تنہا نہیں رہ سکتی اور وہ دوسروں کےساتھ مل کر زندگی گزارتی ہے‘جانوروں کی زندگی کا سٹائل بھی تنہائی کے سانچوں میں ڈھلا ہوتا ہے ‘سو قرنطینہ میں تنہائی کو اختیار توکرنا پڑے گا تنہا تو رہنا پڑے گا جو لوگ عام زندگی میں بغیر کسی بیماری کے تنہائی کی زندگی گزار تے ہیں ان سے پوچھئے کہ تنہائی کا زہر کتنا خطرناک ہے ‘جب کوئی پوچھنے والانہ ہو اور اپنے بھی بیگانے ہو جائیں کوئی منہ لگاناچھوڑ دے اور پھر اس عالم میں اگر کسی فرد کوقرنطینہ میں ڈال دیں تو اس پرکیا گزرے گی‘ کیونکہ بیمار آدمی کو عام طور سے دوا کےساتھ تسلی بھی دینا ہوتی ہے‘اس کی خدمت کرنا ہوتی ہے ‘مگر کیا کریںکہ اس نامراد وائرس کے ہاتھوں بھلے چنگے لوگ بھی جو تنہا نہیں ہیں اور ملنساری کی زندگی میںجیتے ہیں وہ بھی تنہائی میں بھیج دیئے گئے ہیں‘ ساتھ کوئی بات کرنےوالا نہ ہو تو بندہ موبائل پرکسی کےساتھ آخر کتنی باتیں کرے گا‘پھرتفریح کےلئے فلمیں دیکھے گا اور مووی کلپ کے نظارے کرکے دل بہلائے گا‘انسان کو انسان کی ضرورت ہے لیکن اس قدر مشکل وقت جو اب کے نہ صرف ہم پر بلکہ پوری دنیا پر آیا ہے آئندہ کبھی نہیں آئے گا۔

 ہمارے ہاں تو بوڑھے اور فالج زدہ مریضوں اور نانا دادا کی بھی اتنی خدمت کی جاتی ہے کہ بچے اس کی چارپائی سے لگے بیٹھے ہوتے ہیں‘پھر آج اگر کسی بوڑھے شخص کو کورونا کی وبا آن گھیرے تو اسکا کیا حال ہوگا کہ اس کے پاس بھی کوئی نہ پھٹکے اور نہ اس کے بچے اسکا ساتھ دیں ‘ وہ تو تنہائی میں اس غم میں ہی میں سوچ سوچ کر اس وائرس کے انجام سے پہلے دل کے دورے میں جاں بحق ہو جائے‘ دادا جی رو رہے ہیں کہ مجھ سے میر ے بچوں کو تو جدا نہ کرو کیونکہ اس کے پوتوں کو چھوڑا گیاتو بچوں کو کورونا ہونے کا بھرپور امکان ہے‘اگر ناناجی کے پاس نواسوں اور نواسیوں کوچھوڑا جائے کہ وہ بیماری کے بستر پر بچوں کو دیکھ دیکھ کر جیئے تو ایسے میں وہ اگر آئسولیشن وارڈ میںہوتو وہاں تو دل دھڑکی سے ہی اجل کا نوالہ بن جائے ‘باہر ملکوں کا معاشرہ تو اور طرح کا ہے ‘وہاں تو کورونا کو چھوڑیں بوڑھے دادا دادی نانا نانی اورماں باپ کواٹھاکر اولڈہوم میںڈال کر آ جاتے ہیں‘کیونکہ ان کے پاس ان کودینے کےلئے وقت نہیں‘ بوڑھے ماں باپ جو کام کے نہیںرہتے تو وہ اس طرح ہوجاتے ہیں جیسے کوئی ٹھیک ٹھاک بندہ اپنے فالج زدہ ہاتھ کو گلے میں پٹی سے لٹکائے گھومتا پھرے‘ وہاں بعض ملکوں میںاپنے ماں باپ کا خرچہ ہرمہینے اولڈہوم والوں کو بھجوا دیتے ہیں پھراگر وہاں ان کے والدین کی موت واقع ہوجائے تو اولاد کے پاس ان کے جنازہ کےلئے بھی وقت نہیںہوتا‘سو ادارے والے ان کو دفنا کر بچوں کو اطلاع دے دیتے ہیں کہ آ پ کے ابا اماں کو دفنادیاگیا ہے وہ فلاں تاریخ کو انتقال کر گئے تھے‘ان کی دفنانے کفنانے وغیرہ کاخرچہ جو ہوااس کابل پیش خدمت ہے ‘ہمارے ہاں بھی اب وہی معاشرہ اپنی نئی اور مکروہ شکل میںسامنے آ رہاہے ‘کیونکہ جو معاشرے ترقی کرتے ہیںوہاں یہی کچھ ہوتا ہے‘میتوں کے لئے لوگوں کے پاس ٹائم نہیںہوتا۔لیکن اس ترقی سے ہٹ کراب تو کورونا نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔

 خود روز کے ملنے والے کورونا وائرس کے مریض کو میڈیکل عملے کے سپرد کر کے چلے آتے ہیں ‘پھر ہسپتال والے بھی خود کہتے ہیںمریض کو چھوڑ جا¶ ہم اسے دیکھ لیں گے مگراس بات سے ڈرنے والے ڈرتے بھی ہیں ‘اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو جائے اور وہ کورونا سے ہٹ کر اسی دل کے دورے سے انتقال کر جائے تو لواحقین کے دل میں سو سو وسوسے اور اندیشے گھر گھرکر آنے لگتے ہیںکہ اس اس کی موت تو ابھی نہیںہونا تھی یہ اچانک کیسے مر گیا ہے ‘حالانکہ ہسپتال کے عملے نے کورونا وارڈ میںجو لباس پہنا ہوتا ہے وہ اپنی جگہ خوفناکی پیدا کرتا ہے‘باہر کے ملکوں کے بوڑھے لوگوں کو تو تنہائی کی عادت ہو جاتی ہے ‘اگر انہیں خدا نہ کرے کورونا ہو تو انہیں قرنطینہ میں جانے کےلئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی اورگھر میں تو ان کے ہونے کا سوال ہی نہیںپیدا نہیںہوتا۔وہ معاشرہ توجیتے جاگتے چلتے پھرتے نوجوان لوگوں کا معاشرہ ہے۔