وائرس سے نجات

 جیسے صور پھونک دیا گیا ہو ‘ سب دوڑ رہے ہیں کوئی کسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتااو رپھر ظلم یہ کہ آگے سے آنےوالے کو بھی نگاہ میں نہیں رکھتا اس لاک ڈان میں جزوی لاک ڈان کا اگر یہ حال ہے تو جب لاک ڈان مکمل ٹوٹے گا تو پھر کیا ہوگا ان دنوں بازار بند ہیں اور لوگ ڈر کے مارے گھروں میںدبکے ہوئے ہیں ‘جو نکلتے ہیں وہ مجبور ہیں اور روٹی روزی کےلئے نکلنا تو پڑتا ہے ‘وگرنہ بچوں کو بھوکا تو نہیں مارنا‘ان دنوں کی بیروزگاری بھی یاد رہے گی‘بلکہ یوںکہ ان دنوں کرپشن زیادہ ہو گئی ہے ‘ہر کام کاج میں بعضوں کو چھوڑ کر زیادہ جھوٹ کے سہارے اپنا ٹھیہ چلا رہے ہیں ‘ایک شہری نے چھری اٹھائی اور رات کے اندھیرے میں چپکے سے گھر سے باہر نکلنے والا تھا کہ پچھلے پہر کی اس گھڑی میں دہلیز پرہی بیوی نے پیچھے سے آواز دے کرروک لیا ‘کہاں جا رہے ہو ‘کہنے لگا آتاہوں‘مگر بیوی نے تو چادر تلے ہاتھ میں چھری دیکھ لی تھی ‘خاتون نے کہا نہیں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ‘پہلے مجھے بتلا کہاں جا رہے ہو۔ اس نے پوچھا تم کو اپنے بچے کے رونے کی آواز نہیں آ رہی ‘دودھ کےلئے شام سے بلک رہاہے ‘مجھ سے تو اور برداشت نہےں ہوتا‘ جاتا ہوں ایک گھر میں نے دیکھ رکھا ہے‘ وہاں اکیلا مالدار آدمی رہتا ہے۔ بوڑھا بھی ہے میں اس سے کچھ نہ کچھ نکال ہی لوں گا‘اس کی بیوی نے سینے پر ہاتھ مارے اور سر کا دوپٹہ نیچے گرایا ۔ہائے ساری عمر تونے جوکام نہ کیا وہ اب کرے گا۔بچوں کو حرام کھلائے گا‘ یہ تو امتحان ہے ہم جیسے لوگوں کا ۔

مجھے یہ رقم نہیں چاہئے۔ شوہر نے مضبوط ارادے کےساتھ آہستہ سے کہا تم بھی تو صبح سے بھوکی ہو ‘وہ آگے بڑھا تو خاتون اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی میں حرام نہیں کھاں گی اوراپنے بچے کوبھی حرام کا دودھ نہیں پینے دوں گی وہ پیچھے ہٹا اور کمرے میں واپس آگیا۔ جانے اس کے بعد اس پر کیا گذری ہوگی ۔باواجی آج کل کے حالات اسی طرف آ رہے ہیں ‘پہلے ہی ہم روپے پیسے کے لحاظ سے کون سے سکھ میں تھے جو ان دنوں کی سختی کے سبب کوئی سکون کی گھڑی تلاش کر لیں گے۔” کیابیت گئی اب کے فراز اہلِِ چمن پر ۔ یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے۔ “ آج کل تو ہمسایوں پر اور دوستوں یاروں رشتہ داروں پر سب کچھ اگرنہیں تو بہت کچھ قربان کردینے کے دن ہیں سمارٹ لاک ڈان کا آغاز ہو چکا ہے ‘جو رفتہ رفتہ کرفیو کی شکل اختیار کر لے گا۔ میں جس قطار میں کھڑا تھا جب آخر پرمیں نے دائیں بائیں دیکھا اور غور کیا کہ میرے علاوہ کس کس نے ماسک پہن رکھا ہے تو سخت مایوسی اور حیرانی ہوئی کہ سو پچاس آدمیوں میں سے کسی نے بھی ماسک جیسا تکلف گوارا نہیںکیا تھا۔ حالانکہ کہا جارہا ہے کہ ماسک پہنو اور ہاتھ نہ ملا تو پچاس فی صد چانس ہے کہ آپ کوررنا سے بچ جائیں‘ آج کل تو دنیاکے تمام لوگوں میں سے کچھ تکلیف میں ہےںاور زیادہ توتکالیف میں پڑ گئے ہیں اور اس سے زیادہ تکلیفات سہہ رہے ہیں۔ کوئی خوش نہیں ہے ‘ایک خوف و ہراس کی سی کیفیت ہے‘ آدمی آدمی سے ڈر رہاہے ۔” ابر تنہائیوں کابرسے گا۔ آدمی آدمی کو ترسے گا“۔مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگتی ہو ‘کسی سے ہاتھ نہ ملا او رکہنی کو آگے کروتو وہ حیرانی سے دیکھتا ہے اور دل ہی دل میں سامنے والے کو جاہل قرار دیتا ہے‘مگر اس کے گھر میں سے کوئی فرداس وائرس میں مبتلا ہو کر ہسپتال کی راہ لیتاہے تو اسے کوروناپر یقین آتا ہے بازار تو اول جانہیں سکتے ‘اگر ضرورت کا سامان لینے جانا ہے تو لوگ دکانوں پر یوں ٹوٹے ہیں کہ لگتا ہے شاید سامان ختم ہو جائے گا ۔ سو اپنے گھر بھر رہے ہیں ‘اس عالم میں بھی سمارٹ قسم کا رش ہے۔

چنگ چی ہیں اور رکشہ اور پھرموٹرسائیکل سوار ہیں ‘انھوں نے تو شہر کا سکون برباد کر دیا ہے ۔کوئی کسی کی بغل میں سے جیٹ جہاز کی طرح ہو کر نکل گیا اور کوئی میزائل کی طرح اچانک رش میں آن دھمکا ۔ اسی میں ہم بازار جاتے جاتے ہیں تو خون جلا کر گھر کولوٹے ہیں ‘لگتا ہے ہر آدمی کی برداشت ختم ہوگئی ہے ‘ذرا سی بات ہوئی اور سر بازار بحث و تکرار میں مبتلاہو جاتا ہے ‘دکاندار کے گریبان میں گاہک ہاتھ ڈال رہاہے اور کوئی دکاندار چڑچڑا ہو کر سودا بیچتے ہوئے ایک عجیب سی الجھن کاشکار ہے ‘کیونکہ گھر سے اگر باہر نہ آئے دکان نہ کھولے تو کھائے کیا ‘اگر دکان پر آئے تو کورونا کے ہاتھوں بیمار ہوکر اپنے اوپر علاج کےلئے لگائے کیا ۔ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے ‘سمارٹ لاک ڈن کی وجہ سے بعض جگہوں پر ہر گلی کے کونے پر نگران بیٹھے ہیں اور اندر جانے نہیں دیتے اور باہر اگر آئیں تو باہر نہیں آنے دیں گے‘ خدا تو کرے اس وائرس سے جلد جان چھوٹے ۔