’دیکھتی آنکھوںاور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘ کہنے والی مترنم سریلی آواز ہمیشہ کےلئے خاموش ہوگئی‘ 26 نومبر 1964 کو جب پاکستان کا پہلا ٹیلی ویژن سٹیشن لاہور میں قائم ہوا تو اس کے پہلے صداکار طارق عزیز تھے‘انہوں نے 1974میںسوال وجواب کے مقبول سٹیج شو’نیلام گھر‘کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے ’شیشے کا گھر‘ اور ’کسوٹی‘پیش ہوتے رہے لیکن نیلام گھر کو سب سے زیادہ طویل عرصے تک پیش ہونےوالے سٹیج شو کا اعزاز حاصل ہوا‘ یہ شوبعد میں طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز کے نام سے بھی چلتا رہا۔ ان سٹیج شوز کو طارق عزیز کی دلکش شخصیت‘گرجدار اور مترنم آواز‘ ادبی اور علمی گفتگوکے علاوہ موقع اور محل کی مناسبت سے اشعارکے استعمال نے چار چاند لگا دئیے تھے‘ ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش ہونےوالے پروگرام اعلیٰ معیارکے ہوتے تھے خواہ موسیقی ہو‘ طنزومزاح یا ڈرامہ‘ موسیقی کا پروگرام ’راگ رنگ‘ لاجوا ب تھا‘مہدی حسن‘ نصرت فتح علی خان‘ غلام علی‘احمد رشدی‘ اقبال بانو اور نیرہ نور جیسے گلوکار ٹیلی ویژن پرآتے رہے اور اپنے فن کا جادوجگاتے رہے‘احمد رشدی ‘ نازیہ حسن‘ذوہیب‘ اورمحمد علی شہکی کے گانے بھی زبان زد عام تھے۔ طاہرہ سید ’یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے‘ یہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے‘۔
گاتی تو احمد فراز بت بنے اپنے کلام کو سنتے ہوئے دکھائی دیتے‘ ریشماں میری ہمجولیاں گاتی اور عالم لوہارمترقص انداز میں اپنے آواز کا جادو جگاتے‘ناہید اختر ترو ترو تارا تارا گاتی تو سماں باندھ دیتی‘ طنزو مزاح کی دنیا میں الف نون‘ ففٹی ففٹی اور ٹال مٹول اپنے وقت کے ہر دلعزیز پروگرام تھے‘معین اخترجیسامزاح پھر نہیں دیکھا‘ضیا محی الدین بھی لاجواب تھے‘کل کے بچے اور آج کے بوڑھے کارٹون اور کلیاں شوق سے دیکھتے‘ہامون جادوگر‘ زکوٹا جن اور بن بتوڑی چڑیل کا ڈرامہ ’عینک والا جن‘ چھوٹے بڑے دونوں بہت شوق سے دیکھتے تھے‘ سلسلے وارڈرامے جیسے خدا کی بستی‘ان کہی‘ دھوپ کنارے‘ اندھیرا اجالا‘ وارث اور توتا کہانی جس وقت نشر ہوتے تو سڑکیں سنسان ہوتیں اور کاروبار زندگی رک جاتا تھا۔ان ڈراموں میں معاشرے کی کمزوریوں کودکھایا جاتا اور اصلاح کا درس دیا جاتا۔ آج جو ڈرامے مختلف چینلوں پر دکھائے جا رہے ہیں ان کا معیارپی ٹی وی کے پرانے ڈراموں جیسا نہیں رہا‘یہ اچھا ہے کہ دوست ملک ترکی کا تاریخی ڈرامہ مل گیا ورنہ ہم نوجوانوں میں تاریخ کا شعور بیدار کرنے کےلئے کیا کرتے؟نسیم حجازی بھی توآج ہمارے درمیان نہیں ہےں‘ اس دور میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کام کرنےوالے صداکار اور فنکار زبان کی شائستگی‘ الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے‘ ریڈیو اور ٹی وی خبریں سن کر طلباءاپنا تلفظ درست کرتے‘ مہ پارہ صفدر‘ شائستہ زید‘ خالد حمید اور اظہر لودھی اسوقت کے مشہور نیوز کاسٹرزتھے۔
انور بہزادریڈیو سے منسلک تھے‘ ٹاک شوز کے میزبان تجربہ کار اور جہاندیدہ ہوا کرتے تھے‘ان کامتعلقہ موضوع پر گہرامطالعہ ہوتا تھا‘بات کرتے تو لطف آتااور معلومات میں اضافہ ہوتا‘آج کئی میزبان بہت تجربہ کار اور خبردار ہیں لیکن سب نہےں‘ زمانہ بدل گیا ہے‘ زبان کی صحت اور الفاظ کے تلفظ کاکم خیال رکھا جاتاہے‘چینی کے مقدمہ کی خبر سناتے ایک نیوز کاسٹر کمپنی کو کمپانی پڑھ رہی ہے‘ ایک دوسرے نے حجم کا ہجوم سے ملتا جلتا تلفظ کیا‘ ایک اور موقع پرتوجہ کوتوجا کے انداز میں پڑھا۔ آج کے صداکار اور اینکر حضرات اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ تیز اور جلدی بات کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لےجائیں‘یہ ضروری نہیں کہ سامعین کوبات سمجھ آئے بس ہر ایک سی این این کے رزخان کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اردو میں پھر بھی حالات اتنے خراب نہیں لیکن جن چینلوں سے پشتو زبان میں نشریات پیش کی جاتی ہیں وہاں شایدیہ نہیں دیکھا جاتا کہ صداکار صحیح زبان بول سکتے ہیں یا نہیں۔ان میں کئی ایک اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو شخص اپنی گفتگو میں جتنا دوسرے زبانوں کی آمیزش کرے گا اتنا عالم فاضل سمجھا جائیگا۔
ایک دو تو پشتو کے سادہ لفظ’او‘کی جگہ اردو لفظ ’اور‘ استعمال کرتے ہیں۔ ان رنگ برنگے چینلوں پر کام کرنے والوں میں کونسی خوبیاں ہونی چاہئےں؟ ایک عرصے پہلے شاید مشتاق یوسفی نے ایسے ہی موقع کےلئے کہا تھا کہ ٹی وی پر صابن کا اشتہار دیکھ کر پتا نہیں چلتا کہ اس سے منہ ہاتھ دھونے ہیں یا اس کو کھانا ہے۔طارق عزیز نے ریڈیو سے اپنی فنی سفر کا آغاز کیا‘ پھر فلمی دنیا میں گئے اور مشہور فلموں انسانیت‘ سالگرہ اور ہار گیا انسان‘میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنی پنجابی شعری مجموعے کو ’ہمزاددا دکھ‘ کے نام سے شائع کی۔ اپنے کالموں کے مجموعے کو داستان کا نام دیا۔ انہوں نے سیاست میں بھی طبع آزمائی کی اور لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن حقیقت میں انکی وجہ شہرت ٹیلی ویژن رہی۔ وہ ٹیلی ویژن کے ایک زریں دور کے نمائندے بلکہ ٹرینڈ سیٹر تھے۔ اس دور کے چند لوگ رہ گئے جیسے محمد قوی خان اور بشریٰ انصاری۔ ان کی عمریں دراز ہوں لیکن ایک یا دو پھولوں کے کھلنے سے بہار نہیں آتی‘ وہ دور واپس نہیں آئے گا جوقصہ پارینہ بن چکا ہے‘ طارق عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے ہم نے ایک عہد کو بھی دفنا دیا۔ غالب نے کہا ہے۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے