میںکیسے بھول سکتی تھی

مغرب کی بے انتہا سرد اور خاموش راتوں میں سے ایک جسم کومنجمد کرنے والی رات تھی ‘ عموماً ایسی راتوں میں مغرب کے لوگ اپنی راتیں کلبوں اور بازار میں گزارتے ہیں یا اپنے گرم گھروں کے اندر ہی رہتے ہیں لیکن کرسمس کے مہینے میں اور نیا سال قریب آنے کی وجہ سے ان ٹھنڈی راتوں کی رونق بھی کچھ نہ کچھ برقرار رہتی ہی ہے میرا نام ایلس ہے ایسی ہی ٹھنڈی برف رات میں اپنے اکیلے پن سے گھبرا کے میں نے ٹورنٹو کی سڑک پر لمبی ڈرائیو کو ترجیح دینا پسند کیا آج نہ جانے مجھے اپنے والدین کیوں بہت زیادہ یاد آ رہے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ خوشیوں اور تہواروں کے دنوں میں اپنے دل و جان سے پیار ے رشتے بہت یاد آتے ہیں جب کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ چکے ہوتے ہیں وہ ہمارے خوابوں میں تو آ سکتے ہیں حقیقی زندگی میں ان کا واپس آنا ناممکن ہوتا ہے میرے والد ایشیا کے ایک دور دراز ملک سے تعلق رکھتے تھے اور میر ی ماں فرنچ گوری تھی دونوں کی شادی اتفاق نہیں تھی بلکہ میرے والد نے ہمارے گھر میں ہی پرورش پائی تھی یعنی میرے نانا بھی ایشین تھے اور انہوں نے اپنے سگے بھانجے کو کینیڈا بلا کر تعلیم و تربیت کا ذمہ لیاتھا اس طرح میری ماں اور ان کا کزن ایک ہی گھر کے آنگن میں پروان چڑھے اور میری نانی نے ہی دونوں کو بہت محبت دی ‘ دونوں ایک ہی سکول میں جاتے تھے ایک جیسی گیمز کھیلتے تھے اور ٹورنٹو کے مضافات میں پرورش پانے والے یہ بچے آپس میں ایک دوسرے کے بہت سچے دوست تھے میری نانی انتہائی خوش حال تھیں میرے نانا روایتی ایشین مردوں کی طرح میری نانی کو بہت چاہتے تھے۔

 وہ اپنی مادری زبان یعنی پشتو زبان میری نانی کو سکھانے میں پوری طرح کامیاب رہے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ میر ی امی بھی اس زبان کو فرفر بولتی چلی گئیں اسلئے کہ ابو کا جو بھانجا دیار غیر سے آیا تھا وہ بھی اسی زبان کا امین تھا اور پھر میری نانی نے کالج سے گریجوشن کرنے کے فوراً بعد میری ماں کی شادی اس کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے والد سے کر دی یوں یہ رشتہ مزید پائیدار خون کے رشتے میں بدل گیا میرے نانا زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے اور ایک دن نانی کو نہایت سوگوار چھوڑ کے صرف 55 سال کی عمر میں فوت ہو گئے جب میں پیدا ہوئی تو میری امی صرف22 سال کی تھیں مجھے زیادہ تر نانی نے پالا کیوں کہ امی ابو دونوںدور دراز یونیورسٹی میں پڑھنے جاتے تھے اور ات کو واپس آتے تھے اکثر تو میں نانی کے کمرے میں سوئی ہوتی تھیں لیکن مجھے چھٹی کے دن امی ابو کی اتنی توجہ ملتی کہ میرا دل چاہتا ہفتہ ‘ اتوار ہر روز آجایا کرے ان تین اہم ترین پیار بھرے رشتوںمیں میں بڑی ہوتی گئی ‘ امی یونیورسٹی سے فارغ ہوئیں تو پی ایچ ڈی کرنے امریکہ کی مشہور یونیورسٹی چلی گئی او رابو کینیڈا کی ایک فرم میں بہت بڑی پوسٹ پر تعینات ہوئے ان کا خیال تھا کہ وہ امی کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کریں گے فی الحال نانی کو اور مجھے ان کی ضرورت تھی ایک دن امی کے ایک پروفیسر کا فون آیا ابو نے ہی سنا امی یونیورسٹی کی سیڑھیوں سے گر گئی تھیں اور ان کے دماغ کی ہڈی فریکچر ہوئی تھی ابا کی دنیا ویران ہوئی نانی نے مجھے پیار کیا اور ابا گاڑی کو تیز ی سے ڈرائیوکرتے ہوئے میری لینڈ روانہ ہو گئے اور پھر یہ اندوہناک خبر نانی اور میرے لئے بھی دنیا اندھیر کر گئی کہ ابو امی کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس چلے گئے ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ زندہ نہ بچ سکے اس سے بھی زیادہ ایک اور اندوہناک خبر ہماری منتظر تھی کہ امی بھی اپنی چوٹ سے زندہ نہ بچ سکیں وہ ابا کے لئے آنکھیں کھولے کھولے آخر کار اپنی آنکھیں بھی بند کر بیٹھیں نہ جانے کتنی کرب ناک راتیں اور دن میرے اور نانی کے منتظر تھے بہت سال گزر گئے ہمیںصبر آ گیا ہم فنانشلی بہت کمزور ہوگئے تھے میں تعلیم کے ساتھ چھوٹے سٹوروں پر سیلز گرل کے طور پر بھی کام کرتی تھی اور آج اس سرد رات میںبے حد جدید ماڈل کی گاڑی چلاتے ہوئے مجھے اپنے ماں باپ نہ جانے کیوں یاد آ تے ہیں کرسمس ہے نا۔

اسی لئے خوشیاں اور غم دونوں ہی انسان کواپنے پیاروں کےلئے رلا کے رکھ دیتے ہیں آج رش بھی سڑکوں پر زیادہ ہے میں نے پارکنگ کے لئے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا اور پھر میری نظر تو ٹھہرتی چلی گئی ایک ضعیف عورت ‘ معمولی سی چادر میں لپٹی ہوئی بال بڑھے ہوئے ملجگے کپڑے اور یہ ٹھنڈی رات جب کہ ہر روز ٹورانٹو میں برف پڑ رہی ہے اور سردی ریڑھ کی ہڈی میں گھس جاتی ہے مجھے پارکنگ مل گئی تھی میں نے گاڑی کھڑی کی اور اس عورت کے پاس پہنچ گئی اس نے مجھے گھور کے دیکھا میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو اس نے جھٹک دیا۔ میں اس کا چہرہ پہچان چکی تھی اتنے میں میرے قریب پولیس کی گاڑی رکی میراکاکوٹ میرا ڈیل ڈول امیر ترین تھا پولیس والے آفسر کو لگا کہ کسی مصیبت میں ہوں اس نے میرے قریب آ کر میری مدد کرنے کےلئے مجھے آواز کی لیکن میں نے اس کو کہہ دیا ایسی کوئی با ت نہیں میں اس بے گھر عورت سے بات کر رہی ہوں لیکن وہ کھڑا رہا خاتون مجھے مسلسل برا بھلا کہہ رہی تھی اور سختی سے کہہ رہی تھی کہ میں اس کے پاس سے ہٹ جاﺅں لیکن میں جانتی تھی کہ اس ٹھنڈی رات میں اس کو کم ازکم گرم کافی ہی پلادوں میں اس کی منت کر رہی تھی کہ سامنے کیفے میں میرے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ پی لے اس طریقے سے مجھے امید تھی کہ میں مزید اس قابل ہو جاﺅں گی کہ اس کی مددکر سکوں‘ ہم ایک ٹیبل کے ارد گرد بنی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے‘ میں نے عورت کے چہرے کو دیکھا وہ اتنی بوڑھی نہیں تھی جتنی نظر آنے لگی تھی میں نے اسکو اپنے ہاتھوں سے کافی پلائی اور بسکٹ کھلائے اور پوچھا کہ کیا اس نے مجھے پہچانا ہے اس نے میرے چہرے کو غور سے دیکھناشروع کر دیا آج سے 10 سال پہلے بھی میں بے سروسامانی کی حالت میں اسی کیفے میں آئی تھی کالج مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش کرتے کرتے میری جمع پونجی ختم ہو گئی تھی اور میں دو دن سے فاقے سے تھی۔

 میں نے اسی کیفے میںکاﺅنٹر پر کھڑی منیجر سے کہا تھا کہ کیا میں کھانا کھانے کے بدلے میں دو گھنٹے یہاں کام کر سکتی ہوں اس نے صاف انکار کر دیا لیکن کچھ سیکنڈ بعد اس نے مجھے ایک کونے کی میز کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے کو کہا اور میرے لئے چکن سینڈ وچ کافی اور ڈھیرے سارے بسکٹ لے کر آئی میں نے فاقہ زدہ شخص کی طرح وہ کھانا شروع کر دیا میری نظر کاونٹر پر پڑی تو دیکھا کہ منیجرمیرا بل خود پے کر رہی تھی اس نے ہی ایک کمپنی میں چھوٹی سی نوکری دلوانے میں میری مدد کی تھی اور یہ غریب بے گھر عورت میری محسنہ جواس وقت میرے سامنے بیٹھی تھی وہی منیجر تھی جو کئی سال پہلے یہاں اس کیفے میں کام کرتی تھی اور اس نے مجھ بے سہارا لڑکی کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا فن سکھایا تھا اور آج وقت کا پہیہ اس کو بے بہار کر کے اپنے ہی کیفے کے سامنے زمین پر زندگی گزارنے پرمجبور کر رہا تھا وہ مجھے پوری طرح پہچان چکی تھی اوراس نے میرے دونوںہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کرچومنا شروع کر دیا ‘آفیسر قریب کھڑا ہماری گفتگو سن رہا تھ اس نے دوبارہ سہارا دے کر عورت کو میری قیمتی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دیامیں نے پویس آفیسر کا شکریہ اداکیا اور اب میں تیزی سے انہیں نانی سے ملانے اپنے گھر جا رہی تھی یعنی میری نانی جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ پیاری لگ رہی ہے اور میری زندگی کا واحد سہارا ہے ۔