صوبائی حکومت کے حالیہ پیش کردہ سالانہ بجٹ 2020-21کوگو اس حوالے سے تو قابل قدر قراردیاجاسکتا ہے کہ بقول وزیر خزانہ یہ ایک متوازن بجٹ ہے اور اس میں صوبائی حکومت پر کوئی خسارہ ظاہرنہیں کیا گیاہے‘ اسی طرح صوبائی وزیر خزانہ کی اس بات میں بھی کافی وزن نظر آتا ہے کہ یہ بجٹ کورونا کے عالمی وباءکے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کے باعث نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کی پہلے سے کمزور اقتصادی حالت مزید پتلی ہو چکی ہے بلکہ امریکہ، جاپان، برطانیہ،اٹلی،جرمنی اورفرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک کو بھی مسلسل جاری لاک ڈاﺅن اور بے روزگاری کے نتیجے میں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں لہٰذا اس صورتحال کے تناظر میں موجودہ بجٹ چاہے جیسا بھی ہے پاکستانی عوام اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے لگ بھگ دوکروڑ شہریوں کے پاس اسے قبول کرکے برداشت کرنے کے سوااور کوئی آپشن ہے ہی نہیں توچاہے اس پر جتنا بھی واویلا کیاجائے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ویسے بھی ہمارے ہاں بنائے جانےوالے بجٹوں کوچونکہ بالعموم الفاظ اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں سے تعبیرکیاجاتا ہے اسلئے ان میں عام لوگوں کی دلچسپی تقریباًنہ ہونے کے برابر ہوتی ہے البتہ معاشرے کے دو ایسے طبقات ضرور ہیں جن کی نگاہیں بجٹ پر نہ صرف سارا سال مرکوز ہوتی ہیں بلکہ وہ ان بجٹوں کے اندر سے اپنے لئے ریلیف ڈھونڈکرنکالنے میں بجٹ پیش کرنے سے قبل ہی عموماً کامیاب بھی ہو جاتے ہیں‘ان دو طبقات میں ایک طبقہ سرکاری اورنیم سرکاری ملازمین کا ہوتا ہے جو سال بھر روزانہ کے حساب سے بڑھنے والی اشیاءضروریہ کی قیمتوں کی وجہ سے اگر ایک طرف سارا سال شدید معاشی اور معاشرتی دباﺅ کے شکار رہتا ہے تو دوسری جانب وہ کانٹوں پر گزارنے والے سال کے 365دن اس امید پر گزارتے رہتے ہیں کہ کم از کم روٹین کے مطابق بجٹ میں ہر سال کے ہونےوالے اضافے کی روشنی میں نئے مالی سال کے آغاز پر بھی کسی نہ کسی شرح کےساتھ تنخواہوں میں اضافے کے حقدار قرار پائیں گے۔
جس سے انہیں زیادہ نہیں تو کم از کم کچھ نہ کچھ ریلیف تو مل ہی جائےگا لیکن پچھلے سال محض پانچ فیصداضافہ جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں تھا کے مقابلے میں موجودہ مالی سال کے اعلان شدہ بجٹ میں سرے سے ایک فیصد اضافے کابھی نہ کیا جانا نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ حکومتی دعوﺅں اور سابقہ اعلانات کی روشنی جن میں انتخابی منشور اور وعدوں کے مطابق ملک کی غالب اکثریت جن میں کروڑوں غریب اور محنت کش افراد کے علاوہ ایک بڑی تعداد بے روزگار نوجوانوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی ہے کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے سبز باغ دکھائے گئے تھے لیکن اب ان کے ساتھ وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی بجٹ میں جوہاتھ کیاگیاہے وہ یقیناً مایوس کن ہے‘اسی طرح جس دوسرے طبقے کوبجٹ کا سارا سال انتظار رہتا ہے وہ چھوٹاکاروباری طبقہ ہے جسے کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے زیر بحث بجٹ میں چند ٹیکسوں کی چھوٹ کے خوش نماوعدوں پر مبنی اعلانات کے ذریعے اس طبقے کوبھی ٹرخانے کی کوشش تو کی گئی ہے جس پر سرکاری ملازمین اور محنت کش طبقے کی طرح اس متوسط کاروباری طبقے نے بھی اگر زیر بحث بجٹ کو کلیتاً مسترد نہیں کیا تو کم از کم ان کی جانب سے اسکا خیرمقدم بھی نہیں کیا گیا جو بھاری مینڈیٹ کی حامل موجودہ صوبائی حکومت کے لئے یقینا لمحہ فکریہ ہے۔
نئے سال کے بجٹ میں قبائلی اضلاع کو جس بے دردی سے ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کیاگیا ہے اور جس کی باز گشت پیپلز پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کی تمام قابل ذکر جماعتوں جن میں جماعت اسلامی،جمعیت(ف)،اے این پی اور قومی وطن پارٹی شامل ہیں کی جانب سے نہ صرف مسترد کیاگیاہے بلکہ ان جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی قائدین نے اس عمل کو ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ساتھ سوتیلے سلوک سے بھی تعبیر کیا ہے‘بہرحال اس تمام بحث سے قطع نظر توقع ہے کہ موجودہ حکومت بجٹ کی صوبائی اسمبلی سے حتمی منظوری کے وقت جہاں عام لوگوں کے معیار زندگی اور خاص کر اشیاءضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دے گی وہاںسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اگر زیادہ نہیں تو مہنگائی کے تناسب سے کم از کم دس سے بیس فیصد اضافے کے اعلان میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لے گی۔