ملاکنڈ میں سیاحت اور آبی وسائل کی ترقی کے امکانات 

ملاکنڈ ڈویژن کے سیاحت اور آبی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ماضی کی حکومتوں نے چونکہ اس کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اس وجہ سے ان علاقوں کا شمار صوبے بلکہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ غربت بھی ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوگا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں ترقی کے تمام امکانات موجودہیں ۔ واضح رہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کا شمار خیبر پختون خواکے سب سے بڑے ڈویژنز میں ہوتا ہے ۔یہ ڈویژن نہ صرف رقبے اور اضلاع کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑا بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کے لحاظ سے بھی یہ دیگر ڈویژنز سے بڑا ہے۔ ملاکنڈڈویژن جو کہ اپر چترال،لوئرچترال،دیر بالا، دیر پائیں، باجوڑ، سوات، ملاکنڈ، شانگلہ اور بونیر کے نو اضلاع پر مشتمل ہے کی صوبائی اسمبلی میں 27 جبکہ قومی اسمبلی میں 12نشستیںہیں۔ اسی طرح یہ خیبر پختون خواکا واحد ڈویژن ہے جسکی سرحد اگر ایک طرف گلگت بلتستان سے لگی ہوئی ہے تودوسری جانب دیر، باجوڑ اور چترال کے ذریعے اسکی سرحد افغانستان اور چترال کے ذریعے چین اور بالواسطہ طور پر واخان کی پٹی کے توسط سے وسطی ایشیائی ملک تاجکستان سے بھی ملی ہوئی ہیںجس سے اسکی بین الاقوامی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔دلکش قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ یہاں بدھا تہذیب کے آثاراور والئی سوات، نواب آف دیر اور مہتر چترال کے ادوار کے آثار قدیمہ بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاکنڈ کی ایک اور خاص بات اس خطے کے لاکھوں افراد کا روزگار کے لئے بیرون ملک مقیم ہونا ہے جن کی تعداد پاکستان کے کسی بھی ڈویژن سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ تارکین وطن جہاں اپنے خاندانوں کی کفالت میں ہاتھ بٹھا رہے ہیں وہاں ان کا بھیجا جانے والا کثیر زرمبادلہ ملک کی معیشت کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ملاکنڈ صوبے کا سب سے بڑا ڈویژن ہونے کے باوجود جہاں تعلیم ، صحت ،انفراسٹکچر اور دیگر سہولیات کے حوالے سے کافی پسماندہ ہے ۔ ملاکنڈ میں جہاں زراعت ، باغبانی ، گلہ بانی اور سیاحت کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے وہاں تھوڑی سے توجہ اور منصوبہ بندی سے یہ علاقہ بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں بھی صوبے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ضروریات پوری کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کاکہنا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں دستیاب آبی وسائل کے بے پناہ قدرتی ذخائر سے چالیس ہزار میگاواٹ سے زائدبجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجودہے۔ لہٰذا اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بجلی کی پیداوار کا اختیار ملنے کے بعد اگر صوبائی حکومت ملاکنڈ ڈویژن میں بجلی کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے پیداوار کے ذرائع سے استفادہ کرے تو اس سے نہ صرف صوبے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بحران پرقابو پایاجاسکتاہے بلکہ بجلی کی اس پیداوار سے ہونے والی آمدنی کو صوبے کی مجموعی تعمیراور ترقی کے لئے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے علاوہ ملاکنڈکا دوسرا بڑا پوٹینشل سیاحت کا فروغ ہے۔ سیاحت کی بنیادی ضرورت امن و امان کو یقینی بنانے کے علاوہ سیاحوں کو درکار دیگر سہولیات کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی ہے جس میں اہم ترین نکتہ سڑکوں کی معیاری سہولیات کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات پر رہائش، خوراک، موبائل فون اور انٹرنیٹ پر مشتمل کمیونیکیشن کی جدید سہولیات کی فراہمی اہمیت کی حامل ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ سیاحت کے لئے مشہور ملاکنڈ ڈویژن میں صرف ایک چھوٹے درجے کا ائر پورٹ ہے جو بذات خود عرصہ دراز سے غیرفعال ہے۔ سوات کے اس ائر پورٹ کو جدید سہولیات اور وسعت کے ذریعے جہاں پورے ملاکنڈ ڈویژن کے بیرونی ملک مقیم لاکھوں شہریوں کی آسان نقل و حمل کے لئے بروئے کا ر لایا جا سکتا ہے وہاں اس ائر پورٹ کو سارے ڈویژن میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بھی ایک اہم عامل اور مرکزی پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے حرف آخر یہ کہ درج بالا تجاویز کے ساتھ ساتھ اگر ملاکنڈ کی وسعت اور اضلاع کے تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے حقوق ملاکنڈ ڈویژن کے حالیہ جلسہ عام کے مطالبے کی روشنی میں اسے دوڈویژنز میں تقسیم کیا جائے تو اس سے بھی اس پسماندہ ڈویژن کے انتظامی مسائل کافی حدتک حل ہو سکتے ہیں نیز اگر یہاں کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کم ازکم اگلے دس سالوں تک اسے ہر طرح کے ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے تو اس سے بھی اس پسماندہ علاقے کی تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔