معدنیات کی کثرت، قیمتی پتھروں کے ذخائر اور قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ، خیبر پختونخوا کے سات قبائلی اضلاع، خاص طور پر باجوڑ اور وزیرستان اپنی زرخیز مٹی، آب و ہوا اور ماحولیاتی تنوع کی وجہ سے زیتون کی کاشت کے لئے سب سے زیادہ موزوں تصور کئے جاتے ہیں۔مہمند باجوڑ روڈ پر ضلع باجوڑ کی سات تحصیلوں کے میدانوں اور پہاڑوں میں لگائے گئے زیتون کے ہزاروں درختوں کے ساتھ ساتھ زیریں دیر میں تالاش کی سرسبز و شاداب وادیاں ان علاقوں سے گزرنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔واضح رہے کہ باجوڑ کی تحصیل برنگ سے خار اور ناوگئی سے چمرکند تک محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات کے تعاون سے مقامی لوگوں نے زیتون کے درخت وافر مقدار میں اُگائے ہیں جن کی پیداوار ان علاقوں کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں زیتون کی زیادہ تر کاشت مون سون کی بارشوں کی اُمید پر کی گئی ہے کیونکہ دیگر باغات کی طرح زیتوں کے پودوں کےلئے بھی وافر پانی کی فراہمی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ان پودوں کی نشونما اور ان سے پھل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ کے پی حکومت کے زیتون کے فروغ کے منصوبے کے تحت 250,000 سے زیادہ جنگلی زیتون کے درختوں میں پیوند کاری کی گئی ہے جبکہ ضلع باجوڑ میں 150 ایکڑ رقبے پر زیتون کے باغات کامیابی سے اُگائے گئے ہیں یہ ان باغات کے علاوہ ہیں جو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نجی سطح پر اُگائے ہیں۔خیبر پختونخواکے تجارتی پیمانے پر زیتون کی کاشت کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کاکہنا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن بشمول باجوڑ اور دیر کے اضلاع، جنوبی وزیرستان، اورکزئی اور خیبر قبائلی اضلاع بھی زیتون کی کاشت کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔انہوں نے کہا کہ کے پی، پنجاب، بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں تقریباً 4.4 ملین ہیکٹر اراضی زیتون کی کاشت کےلئے موزوں قراردی گئی ہے۔زیتون کی کاشت اور استعمال کے حوالے سے یہ بات لائق توجہ ہے کہ سپین دنیا کے کل خوردنی تیل کا 45 فیصدیعنی 2.6 ملین ہیکٹر پر پیدا کرتا ہے جبکہ پاکستان زیتون کی کاشت کے لیے 4.4 ملین ہیکٹر کے وسیع رقبے کے باوجود اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 75 فیصد خوردنی تیل درآمد کر رہا ہے۔یاد رہے کہ اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کا پہلا پروموشنل پراجیکٹ یکم جون 2012 کو شروع کیا گیا تھا جس کے تحت 1500 ہیکٹر سے زائد رقبے پر زیتون کی کاشت کی گئی تھی۔بعد ازاں 3.82 بلین روپے کا یہ منصوبہ 12 فروری 2012 کو پاکستان آئل ڈویلپمنٹ بورڈ کی منتقلی کی وجہ سے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے حوالے کر دیا گیاتھا۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً 6.5 ملین جنگلی زیتون کے پودے قدرتی طور پر گھنے زیتون سے ڈھکے پہاڑوں اور میدانی علاقوں میں باجوڑ، دیر، وزیرستان، نوشہرہ اور راولپنڈی کے خطہ پوٹھوہار کے علاوہ دیگر اضلاع میں انکلوژرز کے ذریعے اُگائے گئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیتون کے درخت کو پھل دینے کےلئے پانچ سال درکار ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایک کلو زیتون کے پھل سے 200 ملی لیٹر تیل پیدا ہوتا ہے اور 100 کلو گرام سے ایک کسان 17-20 لیٹر آسانی سے حاصل کر سکتا ہے جبکہ ایک لیٹر اضافی کنواری زیتون کا تیل تقریباً 2200-2500 روپے فی لیٹر میں فروخت ہوتا ہے۔اس طرح ایک درخت ایک کسان کو 15,400 سے 20,000 روپے سالانہ آمدنی دے سکتا ہے اور زیتون کا پھل مقامی مارکیٹ میں باآسانی 120 روپے فی کلو گرام میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ زیتون کے غیر ملکی پودے زیادہ تر سپین، اٹلی، تیونس، ملائیشیا، مراکش اور ترکی سے درآمد کیے گئے ہیں جو مقامی جنگلی زیتون کے مقابلے نسبتاً مہنگے ہیں اور کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے جنگلی زیتون کے درختوں میں پیوند کاری کے ذریعے مقامی پودوں کی پیداوار بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ باجوڑ اور دیر اضلاع میں تیل نکالنے والی مشینیں کیمیکل سے پاک ہیں اور پاکستان کے زیتون کے تیل کی پاکیزگی اور بہتر معیار کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ مانگ ہے۔ماہرین کے بقول زیتون کے پودے لگانے کےلئے موزوں 4.4 ملین ہیکٹر اراضی کے باوجود پاکستان 1970 سے سویا بین، پام آئل، سورج مکھی اور دیگر متعلقہ اجناس سمیت خوردنی تیل کی درآمدات پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے۔صرف سال 2017-18 کے دوران 1.241 بلین روپے کا تقریباً 3000 ٹن زیتون کا تیل درآمد کیا گیا ۔پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ ضرورت تقریباً 50 لاکھ ٹن ہے جس میں 16 کلو گرام فی کس خوردنی تیل استعمال ہوتا ہے۔ 2006 میں ہمارا خوردنی تیل کا درآمدی بل صرف 615 ملین ڈالر تھا لیکن 2022 میں یہ ریکارڈ 3.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا جب کہ ملکی پیداوارصرف چھ میٹرک ٹن ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کے پی میں دریافت ہونے والے 70 ملین جنگلی زیتون کے درختوں میں سے 40 ملین پودوں میں اگلے پانچ سالوں میں محکمہ زراعت کے تعاون سے پیوند کاری کی جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں زیتون کی کاشت کی بڑی صلاحیت ہے اوراس ضمن میں حکومتی سرپرستی سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور غربت کے خاتمے میں مدد ملنے کے علاوہ یہ شعبہ پاکستان کو خوردنی تیل میں خود کفیل بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتاہے۔اس سلسلے میں مزید موثر اور تیز اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔