خیبر پختو نخوا کے حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق 21 اضلاع کی 65 ویلج ونیبر ہڈکونسلوں میں 72 نشستوں پر ضمنی انتخابات میںسب سے زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ،جن کی تعداد 40 ہے ۔دیگرنتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 14، جمعیت علمائے اسلام نے 6، جماعت اسلامی نے 5 ،عوامی نیشنل پارٹی 4، پیپلز پارٹی دو جبکہ تحریک لبیک نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان 65 و یلج ونیبر ہڈ کونسلوں کی 72 نشستوں میں سب سے زیادہ 30 یوتھ کونسلر کی نشستوں ،23 جنرل کونسلر کی نشستوں، 10 مزدور کسان اور 9 خواتین کو نسلر کی نشستوں پر الیکشن ہوئے ۔گو ان انتخابات میں وہ روایتی جوش خروش نظر نہیںآّیا جو عام طور پر اس سطح کے انتخابات میں نظر آتا ہے جس کی وجہ سے پولنگ کی عمومی شرح بھی بہت کم رہنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ان ضمنی انتخابات میں ووٹرز کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ اگر شدید گرمی کے موسم کو قراردیا جارہا ہے تو دوسری جانب حالیہ مہنگائی کی شدید لہر کی وجہ سے بھی لوگوں نے ان انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی جس کا واضح اثر ٹرن آﺅٹ پر پڑا ہے۔ان ضمنی بلدیاتی انتخابات میں عام ووٹرز کی عدم دلچسپی کی ایک اور وجہ شاید بلدیاتی اداروں کے تقریباً دوسال پورے ہونے کے باوجود ان کی غیر فعالیت کو بھی سمجھا جاتا ہے،ایک تیسری وجہ لوگوں کا عام انتخابات کا انتظار کرنا بھی ہے کیونکہ لوگوں کی ذیادہ تر دلچسپی عام انتخابات میں ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان دنوں مہنگائی کی جو صورتحال ہے شاید اس سے وطن عزیز تب ہی نکل سکتا ہے جب نئے سرے سے انتخابات ہوں اور ملک میں ایک نئی منتخب حکومت برسراقتدار آئے جو شاید قوم کو مہنگائی اور بدامنی کے چنگل سے نکال سکے۔حالیہ بلدیاتی انتخابات اس حوالے سے بھی اہمیت کے حامل تھے کہ بعض لوگ اسے صوبے کی غیر یقینی سیاسی فضاءکے تناظر میں دیکھ رہے تھے ۔اس وقت چونکہ تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں اگلے عام انتخابات پر مرکوزہیں اس لیئے ان جماعتوں کی جانب سے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیاگیایہی وہ اہم سبب ہے جس کی وجہ سے ان انتخابات میں عوامی جوش خروش نہ ہونے کے برابر تھا۔ان حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کااندازہ ان انتخابات کے سامنے آنے
والے نتائج سے بھی لگایاجاسکتا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی نسبت آزاد امیدواران بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں حالانکہ یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پرمنعقد ہوئے ہیں۔ان انتخابات کے حوالے سے سرد مہری کی ایک اور وجہ ذیادہ تر ان نشستوں پر انتخابات کاہونا ہے جو یوتھ کونسلر،یاپھر مزدور کسان اور خواتین کے لئے مختص تھیں جن میں جنرل نشستوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ چیئرمین کی نشستیں تو نہ ہونے کے برابر تھیں اس لئے لوگوں نے ان میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ موجود ہ بلدیاتی نظام میں پہنچانے کے حوالے سے شاید ہی کوئی موثر مکینزم موجود ہے ۔مختلف کیٹیگریز کےلئے بلدیاتی سطح پر نشستیں مختص کرنے کی سوچ جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے بلدیاتی نظام میں سامنے آئی تھی۔ہمارے ہاں جنرل ایوب خان سے لیکر موجودہ وقت تک بلدیاتی انتخابات کے کئی ماڈلز اپنائے جاتے رہے ہیں اور ان پر موقع کی مناسبت سے تنقید اور اعتراضات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں اور ان بلدیاتیوں اداروں کو لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کارآمد اور قابل قبول بنانے کےلئے بھی کئی ماڈلز کے متعارف کرائے جانے کی صورت میں اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم اب تک کسی ایک مثالی ماڈل پر متفق نہیں ہوسکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بلدیاتی ادارے نہ تو صحیح طورپر پنپ سکے ہیں اور نہ ہی ان اداروں سے متعلق لوگوں کی عمومی توقعات پوری ہو سکی ہیں جس کا نتیجہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی کی صورت میں سامنے آتارہا ہے۔شاید اس نظام میں عوام کی عدم دلچسپی کی بڑی وجہ اس کے ذریعے مسائل کے حل ہونے کی سست رفتار ہے ۔ اگر بلدیاتی نظام کو موثر اور فعال بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ہمارے ہاں بھی وہی استحکام اور قبولیت ملے جو دنیا کے بہت سارے ممالک میں ہے۔ اس سلسلے میں اگر اصلاحات کاسلسلہ جاری رہے اور یہ عمل تسلسل کے ساتھ رہے تو بلدیاتی نظام کے ثمرات سے مستفید ہونا یقینی امر ہے ۔کیونکہ کسی بھی سیاسی نظام میں تجربات اور اصلاحات مثبت اور تعمیری سوچ کا عکاس ہے ۔جہاں تک بلدیاتی اداروں کی افادیت کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے ممالک میں یہی عوام کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے اور انہیں ضروریات زندگی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس نظام کے ذریعے بنیادی سطح تک رسائی ہو جاتی ہے اس لئے یہ ایک بہترین ذریعہ ہے کہ اس کے توسط سے عوام کی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کا اہم فریضہ انجام دیا جائے۔