ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جدہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لینے کے علاوہ مستقبل کے تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی اعلیٰ ایرانی اہلکار نے 37 سالہ شہزادہ محمدسلمان سے ملاقات کی ہے جن کی کوششوں سے چار دہائیوں بعد سعودی اور ایران کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے امکانات پیداہوئے ہےں‘یہ بات حوصلہ افزاءہے کہ امیر عبد اللہیان نے 90 منٹ کی اس اہم ملاقات کو ''براہ راست، صاف اور نتیجہ خیز گفتگو'' قرار دیا ہے جس میں دو طرفہ تعلقات، سلامتی اور ترقی پر بات کی گئی۔ مارچ میں چین کی ثالثی میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے تھے‘ امیر عبداللہیان کا اپنے حالیہ ملاقات کے متعلق کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔توقع ہے کہ ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کا پیش خیمہ ثابت ہو گاجب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی شاہ سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے پہلے دورہ سعودی عرب میںاپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان سے بھی ملاقات کی ہے۔ان کی ملاقات کے بعد امیر عبداللہیان نے شہزادہ فیصل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔شہزادہ فیصل نے کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات علاقائی سلامتی کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔واضح رہے کہ مارچ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران نے ایک دوسرے کے علاقوں میں سفارت خانے اور قونصل خانے دوبارہ کھولنے اور 20 سال قبل طے پانے والے سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر عمل درآمد پر اتفاق کیاہے۔ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ ریاض کے تناظر میں تہران کے سعودی عرب میں حال ہی میں تعینات ہونے والے سفیر علی رضا عنایتی نے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے تبصروں میں کہا ہے کہ ایران کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم کے ساتھ ایک انٹرویو میں علی رضا عنایتی نے ان ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالی جو تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات سے نہ صرف ایران اور سعودی عرب بلکہ پورے خطے اور اس سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔ عنایتی کاکہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والے دوطرفہ روابط کے نتیجے میں دونوں ممالک اور خطے کے لیے فائدہ ہوگا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تجدید سے علاقائی امن‘ استحکام اور آزادی کے لیے اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ خطے میں مذاکرات کے کلچرکو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے ایران سعودی تعلقات پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سعودی عرب اور ایران نے اس سال مارچ میں اعلان کیا تھا کہ وہ سات سال کے تعطل کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے چین کی ثالثی میں ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں معاہدے کے تحت، ریاض اور تہران نے ایک دوسرے کے علاقوں میں سفارت خانے اور قونصل خانے دوبارہ کھولنے اور 20 سال قبل دستخط کیے گئے سیکورٹی اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر عمل درآمد پر اتفاق کیاتھا۔اس معاہدے کے تحت ایران نے گزشتہ ماہ ریاض میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھاالبتہ تہران میں سعودی سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کی ٹائم لائن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے دورہ ریاض کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ انہوں نے یہ دورہ شہزادہ فیصل کے جون میں تہران کے تاریخی دو رے کے جواب میں کیا ہے جہاں انہوں نے امیر عبد اللہیان اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی۔اسی اثناءسعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ دفاعی حکام نے گزشتہ بدھ کو روس میں سکیورٹی کانفرنس کے موقع پربھی ملاقات کی ہے۔یہ ملاقات سعودی وزیر دفاع کے معاون طلال العتیبی اور ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف عزیز ناصر زادے کے درمیان ماسکو میں بین الاقوامی سلامتی پر 11ویں کانفرنس کے موقع پر ہوئی ہے۔ سعودی وزارت دفاع کے مطابق العتیبی نے روس، چین اور پاکستان کے دفاعی حکام سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔وزارت نے کہا کہ ملاقاتوں کے دوران حکام نے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ انہیں بہتر بنانے کے طریقوں کا بھی جائزہ لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق روس کی وزارت دفاع کے زیر اہتمام بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ماسکو کانفرنس میں مختلف ممالک کے 26 وزرائے دفاع اور 16 نائب وزیر دفاع اور چیف آف جنرل سٹاف نے شرکت کی‘ایران اور سعودی عرب کے بہتر ہوتے ہوئے دو طرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والی گرمجوشی اور دو طرفہ رابطوں کے حوالے سے یہ بات بلا کسی شک وشبے کے کہی جا سکتی ہے اس کا فائدہ اگر ایک طرف ان دونوں ممالک کو ہوگا تودوسری جانب اس کے مثبت اثرات مجموعی طورپر اس سارے خطے پر بھی پڑیں گے۔