ارے پشاورکہاں ہو؟

 اب تو ایسی آندھی آئی ہے کہ شہرمیں زندگی ہی کو اڑا کرلے گئی ہے‘چاروں اور سڑکیں خالی ہیں ‘راستے سنسان ہوئے جاتے ہیں ‘ لگتا ہے لوگ اس نئی وبا کے زہر کوسمجھ گئے ہیں ‘کہیں لاک ڈان ہے تو کہیں سمارٹ لاک ڈان میں ایک آدھ علاقہ بندش کا شکار ہے‘پھر لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ آہستہ آہستہ ہر علاقے کا نمبر آئے گا ہر قریہ سمارٹ لاک ڈان میں سیل ہوگا‘پٹرول پمپ میں پٹرول نہیں‘شہری زندگی جیسے فالج زدہ ہو گئی ہے‘ پہلے ہم روتے تھے کہ شہر کی آبادی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور ہر مقام شہریوںکے جمگھٹوں سے لبالب بھرا ہواجام ہے‘ پارک سنسان ہیں اورسینما ہالوں کو تالے لگے ہیں ‘جہاںچار آدمی کھڑے ہوں سرکاری نگرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں ‘ ہفتہ اتوار لاک ڈان کی پابندی کرنا ہے اور پیر کو بھی اگر بازار دفتر کھلے ہیں تو صبح دیر گئے حاضری ہوتی ہے اور عصر سے پہلے ہی انھیں گھرواپس لوٹ جانے کی ہدایت ہے‘یہی اتوار ہوا کرتا تھا کہ جب صبح سویرے لوگ گھروں میں آرام کر رہے ہوتے تو ہم منہ اٹھائے پورے شہر میں گھوم آتے ‘کیونکہ سڑکوں پر ٹریفک تو تھی مگر اتنی نہیںکہ روزانہ ہوتی تھی‘ مگر ہم تو ٹھہرے چرچڑے کہ تین چار آدمیوں کے درمیان ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرے آنا شروع ہوجاتے ہیں اور زبان سے بات ہی نکل نہیں پاتی‘ سو اتوار کا ہلکا پھلکا رش بھی دل کو نہیں بھاتا تھا‘شکایت کرتے اور کالم لکھتے کہ کیسا بھیڑ بھاڑ والا شہر ہے کہ اتوار کے دن صبح کے نو بجے بھی خاموشی کو ترس گئے ہیں‘مگر اب تو جیسے رش ہونے کی دعا لبوںسے نکل رہی ہے ‘ اتوار تو چھوڑ ہفتہ کواور ہفتہ کے دن کو رونا کیا جمعہ کو بھی بازار خالی خالی سے لگتے ہیں ‘پھر پیر سے جمعرات تک خال خال جو رش ہوتا ہے وہ بھی غنیمت ہے۔

 اب تو ماضی قریب کے رش کےلئے جی کرتا ہے کہ بندہ اس رش میںگھومتا پھرتا رہے ‘ کیونکہ جو علاقے رش کے تھے اب تو جیسے آدمیوں کی خوشبو ہی کو ترس گئے ہیں‘ اس کی وجہ یہ نہیںکہ جگہ جگہ پولیس کے کارندے کھڑے ہیںاور لوگوں کو ہدایت دے رہےں کہ گھروں کے تہہ خانوں اور اندھیروں میں گم ہو ج‘بلکہ عوام میں آہستہ آہستہ خود بخود سمجھ آناشروع ہوگئی ہے کہ کورونا خطرناک ہو رہاہے اور روز بروزاس کے وار الٹے پڑ نے لگے ہیں‘پھر یہ وائرس بندوں کو الٹی چھری سے تکلیف دے کرذبح کرنا چاہتا ہے ‘ اس میں میڈیا کا اہم کردار ہے کہ اس نے عوام کو سمجھ دلادی ہے ‘سو اب لوگ کوشش کرکے بھی گھروں سے نہیں نکل رہے ‘یہ اصل میں بہت بڑی تبدیلی ہے ‘بعض تو کوروناکو جھوٹ سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود احتیاط کر تے ہیں‘اگر ماسک نہیں پہنتے تو گھروں میں رہنا سیکھ لیا ہے‘ اس کے باوجو د بعض پڑھے لکھے لوگ نتھیا گلی کی سیرکوجاتے ہیں‘ فیس بک پر تصویریں اپ لوڈ کرتے ہیں‘ دوست پوچھتے ہیںکیا آپ کومعلوم نہیںکہ ہر جگہ وائرس کی کارستانیاں سر اٹھارہی ہیں ‘نہ صرف خود بلکہ بچوں کو بھی ساتھ لے کرآزاد فضاں کے پنچھی بن کر آکسیجن بھرے سانس لے رہیں‘ اب لوگوں کی رائے بدل رہی ہے‘ پہلے کسی سے پوچھو کہ یار کورونا ہے بھی سہی کہ نہیں تووہ سو سو باتیں کرتا تھاکہ کچھ بھی نہیں‘مگر اب جو میں جان کر انھیں چھیڑتا ہوں کہ یا ر اس وائرس کا وجود بھی ہے کہ نہیں ‘ اس پروہ جواب میں فرماتے ہیں ہاں یار ہے تو سہی مگر احتیاط کرناچاہئے‘ بڑی بات ہے کہ انھوں نے وائرس کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔

کیونکہ روز ٹی وی نیوز پر لاشیں دکھائی دیتی ہیں تو وہ کورونا سے توبہ توبہ کرنے لگے ہیں‘کیونکہ پھر یہ بات کہ جولائی اور اگست میں کورونا کی ستم سازیاںاپنے عروج پر ہوںگی ‘پھر یہ بھی پتا ہے کہ ان دنوں بھی لوگ زیادہ مر رہے ہیں ‘سو اب آدمی ہر طرح سے ڈرا ہوا ہے ‘جو ڈرتا نہیںوہ بہادری کی اداکاری کر رہاہے مگر اندر سے ہراساں ہے ‘ اس اتوار کو میں جب صبح کسی کام سے شہر کی فضا میں جانے لگا تو سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو رش ہو اور بازار میں سے گزرنا پہلے کی طرح محال ہو کیونکہ لاک ڈان میں وہ شدت نہیں ‘مگر جب جب آگے بڑھتا گیا تو یوں محسوس ہواکہ شہر کے لوگ اپنی اپنی دکانیںبازار سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑکسی خلائی راکٹ کے ذرےعے مریخ پر منتقل ہو گئے ہیں‘سورج گرہن کی ابتدا سے پہلے اپنا سفر اختتام کر کے گھرلوٹنا تھا کہ سورج کی خطرناک شعاعیں ہمارے جسم میں گرفتار نہ ہو جائیں‘ سورج کو دیکھنا توکیا آسمان کی جانب صرف ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی‘ مگر سورج کی روشی اتنی تند وتیز تھی کہ گرہن ہو کر بھی سورج کا گرہن نظر نہ آیا‘فوراً سے پہلے نیچے دیکھا کہ جو نظر پہلے خراب ہے اور کہیں مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں‘مگر واقعی جب اوپر دیکھنے کے بعدنیچے دیکھا تو چند سیکنڈ آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا تو دل میں آیا کہ لو جی اب کے تو گئے۔