اس شہرمیںجی کو لگاناکیا

 کمال ہے یوں لگتا ہے جون نہیں دسمبر کا مہینہ چل رہا ہے کیونکہ چولہے میں عین دوپہر کے وقت کھانے پکانے کے ٹائم پر گیس ہی نہیں ہوتی ۔ عین دوپہر کے وقت جب سورج اپنی جوانی پر ہوتا ہے گیس کھولو تو گیس کہاں‘پھر کھڑکھڑاتے ہوئے گیس اور بجلی کے بل بھی آ جاتے ہیں‘جب بجلی نہیں گیس نہیں تو’اس شہر میں جی کو لگاناکیا‘جائیں کہیں کسی اور نگریا میں بس جائیں‘جہاں بھلے اونچی نیچی ڈگریا ہو مگر سکھ کا سانس لینا تو مہیا ہو وینٹی لیٹر نہ ہوں اور اپنی آتی جاتی کھلم کھلا سانسیں خدا نے دے رکھی ہوں‘سستے آٹے کی ڈھونڈیا پڑے تو آٹا نہیں‘ حتیٰ کہ گندم نہیں پٹرول کی تلاش میں نکل کھڑے ہو تواسے کھوجو اس کا سراغ نہیں ملتا کہ اسوقت کس پمپ پر دستیاب ہے ‘بس ٹکا سا جواب ہے جی نہیں ہے‘پوچھو کس وقت آئے گا توکہتے ہیںکچھ پتا نہیں ‘وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے شاگردوں کا جو شہر میں دور تک پھیلے ہیں‘پٹرول آنے پر پمپ میں بیٹھ کر موبائل پر اطلاع دے دیتے ہیں سر جی پٹرول آگیا ہے ‘مگر دوسرے شہریوں کا کیا ہوگا‘ یہاں تو جینے کےلئے جو دوا خریدی جاتی ہے وہ بھی اگر رقم ہاتھ میں تھام رکھی ہو تو نہیں ملتی ‘کوئی خاص دوا ہو توکہتے ہیں شارٹ ہے فلاں تاریخ کو پتا کریں مگر فلاں تاریخ کو فون کرو تو کہتے ہیں کہ جی ابھی نہیں آئی‘ بجلی کا کہا جاتا ہے کہ اب شارٹ فال نہیں اور بجلی تو ہم اضافی بنا رہے ہیں اور پھر فروخت بھی کر رہے ہیں مگر جس طرف منہ اٹھا بجلی کی کمی اور بجلی کے غائب ہونے کا رونا ہے‘ شارٹ فال کے نام پر خود واپڈااور پیسکو والے ہم سے بجلی چرا رہے ہیں۔

جانے کرتے کیا ہیں اتنی بجلی کا ‘اتنی بجلی کہاں چھپاتے ہیں اور ان کے کس کام کام آتی ہے‘ بہت سوالات ہیں جو کئی سالوں سے اٹھ رہے ہیں مگر انکا جواب ہوتے ہوئے بھی سب لوگ سن کرخاموش ہیں خود واپڈا والے بھی الٹی سیدھی ہانکتے ہیں کہ بجلی فلاں کام کےلئے ذخیرہ ہو رہی ہے‘دوسری طرف گرانی اتنی ہے کہ ہر شے کی قیمتیںآسمان کو چھو رہی ہیں ۔ پھر کچھ لاک ڈان میںروپے پیسے کی تنگی کی وجہ سے بعض دکانداروں نے اپنی طرف سے بھی چیزیں مہنگی کر دی ہیں‘دودھ کا ڈبہ ہے تو ایک بیکری والا اصل قیمت پر بیچ رہا ہے‘اس کو معلوم ہی نہیں کہ چار دکانیںچھوڑ کر جنرل سٹوروالا چارروپے مہنگا بیچتا ہے ‘چیز ایک ہے مگر مختلف دکانوں پر اس کی قیمتیں مختلف ہیں ‘بعض بڑے سپر مال والوں نے تو قیامت ڈھا رکھی ہے‘روپے کی چیز چار روپے میں بیچ رہے ہیں ‘پھر گاہکوں کو دیکھو لے بھی رہے ہیں ‘کچن ٹشو ہے تو ایک سو پچاس کا ہے مگر تھوڑی سی تبدیلی کےساتھ اونچی دکانوں پر چھ سو اور سات سو میں دے رہے ہیں ‘پوچھو کہ اس میں کیا خوبی ہے تو خوبصورت اور چکنی چپڑی باتیں گھڑی ہوئی کانوں میں شیرا ڈال کر انڈیل دیتے ہیں‘ دوا کا پوچھو کیوں شارٹ ہے ‘جواب میں کہتا ہے اور کون سی چیز دستیاب ہے جواس کے شارٹ ہونے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ‘وہ کہتا ہے کہ پیسے ہاتھ میں لے کر گھوموتوبھی چیزیں نہیں مل رہیں پٹرول نہیںملتا گندم نہیں ہے آٹاکہاں ہے گیس بجلی نہیںہے ‘انہوں نے اپنی پالیسیوں کی خرابی کا سارا ملبہ پہلے تو پچھلی حکومت پر ڈالا اور اب کورونا وائرس کو بدنام کرکے اس پر ڈال رہے ہیں دوسرے کو موقع دےناچاہئے شاید وہ اس کشتی کو گرداب سے نکال کر دریا کی موجوں پر کہیں کنارے لگا دے تاکہ دوسرا اپنی سی طاقت و توانائی لے کر آئے اور اس کے استعمال سے کچھ نہ کچھ کر کے دکھا دے اب تو خود ایوانِ شاہی کے قلع میں اس کے بھیدی تیر چلا چلا کے سوراخ اور دراڑیں ڈال رہے ہیں۔

پول کھل رہے ہیں ‘ایسا تو ہوگا کیونکہ سیاست کے سینے میں دل جونہیں ہوتا‘ سیاست جیسی بے وفا چیز کوئی اور نہیں ‘سیاست میں سب جائز ہے ‘اسی سے یاد آیا کہ آج کل تو دھوکا دینا بہت آسان ہو چکا ہے ‘کیونکہ دھوکا کھانے والے جو پیدا ہوگئے ہیں‘ وہ ملکہ والا قصہ جو مشہور ہے کہ اس نے اپنے عوام کو دیکھا تو سب بھوکے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ ملکہ نے پوچھا ان کو کیاہوا ۔ مشیر نے جواب دیا روٹی نہیں ہے ۔فرمایا تو یہ لوگ کیک کھا لیں ۔ جی ہاں اس وقت بھی گرانی کے مارے اگر روٹی نہیں ہے تو دھوکا کھا لیں ۔ اسی سے یادآیا کہ جی میں آتا ہے کہیں چھابڑی لگا لیں کہیں آم بیچیں کہیں کلیجی توے پر بھون کر فروخت کریں ۔ کچھ توکریں کیونکہ تنگی میں روز بروز اضافہ ہوا جاتا ہے اگر یہ بھی نہ کریں تو کہاں جائیں۔دوسری طرف چھاب©ڑی تو لگا لیں گے مگر وافر گاہک کہاں سے لائیں گے۔شو روم میںجوتے رکھ کر ڈھیروں کے حساب سے دکاندار بیٹھے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں ‘فیس بک پر پشاوری چپلیاں فری ہوم ڈیلیوری پر بیچ رہے ہیں ۔ کیونکہ لوگ کوشش کر کے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں ۔ اگر مجبوری نہ ہو تو گھرںسے نکل کر کام روزگار نہ کریں۔