غریب کہاںجائے؟

 اسے سکول سے بھی تنخواہ آدھی ملی ۔ اس ماہ بھی اس کے پچھلے قرض کا بوجھ جوں کا توں ہے ۔بلکہ اس میں کمی تو کیا اور اضافہ ہوا ہے ۔پھر مالک مکان نے بھی اسے کرایہ میںچھوٹ دینے سے انکار کر دیا ہے ۔حالانکہ اس نے مکان مالک کو عرضی پیش کی کہ حکومت نے تو کرایہ داروں کو رعایت دینے کا کہا ہے ۔ اس پر وہ ہنسا اور اس کی ہنسی پر درو دیوار روئے جن کے اندر وہ کھڑا ہنس رہاتھا۔کہہ رہاتھا کہ یہ حکومت کے احکامات ہیں او رپھرایک کمزور حکومت کے ہیںجن کی بجا آوری ہمارے لئے فرض نہیں ۔ حکومت اپنا کام کرے گی اور ہمارا اپنا کام ہے ۔لاک ڈان آپ لوگوں کےلئے ہے ہمارے لئے تو کوئی لاک ڈان نہیں ۔ہمارا کام تو پہلے بھی چل رہا تھا اور اب بھی چل رہا ہے ۔اس مکان مالک نے اپنا دفتر بنایا ہوا ہے ۔اس کے پاس ایک بلڈنگ نہیں اس کے پاس اس جیسی چار عمارتیںاور ہیں جن میں کل ملا کر تیس فلیٹس ہیں۔ سو وہ اگرکرایہ معاف کرے یا بعد میں لے تو خود کیا کھائے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اس نے زیادہ منافع خوری کے لئے بعد میں یہ بلڈنگ بھی بیچ دی ۔ اب کچھ دنوں پہلے نیا مالک مکان آیا۔اس نے نہ صرف کرایہ بڑھانے کی بات کی بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ آپ کا بیس ہزار کا پڑا ہوا ایڈوانس کم ہے ۔آپ نے ایڈوانس کی یہ رقم تو پانچ سال پہلے دی تھی۔ اب تو آپ نے میرے منشی کے پاس پورے پچاس ہزار جمع کروانا ہےں ۔ پھر کرایہ جو بڑھا وہ بھی اپنے وقت پر عین پہلی تاریخ کواگر ہفتہ اتوار ہو تو بھی دینا ہوگا۔کرایہ دار کو بھی معلوم ہے کہ فلیٹ کا مالک ایک نفسیاتی دبکا ڈال رہاہے ۔مگر کیوں ڈال رہاہے ۔کیا اسے موت بھولی ہوئی ہے ۔ وہ غریبوں کو تنگ کرنے کا وہاں کیا جواب دے گا ۔ اب وہ سکول ٹیچر سوچ میں ہے کہ کہا ںجائے۔

 کس سے فریاد کرے جس کو بولو وہ آج کل لاک ڈان کا بہانہ کرتاہے اور چٹ انکار کر دیتاہے کہ ہمارے اپنے کھانے کو دانے نہیںتو ہم تمھیں کہاںسے قرض دیں۔عجیب صورتِ حال ہے ۔زندگ کا لطف غارت ہو چکا ہے۔ کسی چیز کا مزہ نہیں ۔ جسے دیکھو رو تا ہے۔ غریب فریاد کر رہا ہے اور حکومت کی پالیسیوںکو پیٹ رہاہے غریب کہاںجائے ۔ اسے کون سہارا دے ۔اس کا احساس کون کرے ۔ احساس پروگرام کے بارہ ہزار جو تین مہینوں کے لئے ہیں کیسے ایک ماہ کا خرچہ بھی اس سے پورا کیا جائے۔ ۔اس رقم کے دینے پر بھی سرکاری فوٹو سیشن ہو رہے ہیں ۔ کب سرمایہ پرستی کاسفینہ ڈوبے گا۔ کب غریبوں کی بھی سنی جائے گی۔ کب وہ اندر جا کر منصفِ شہر سے انصاف حاصل کرے گا ۔وہ کہ جس کو انصاف کی الف ب بھی معلوم نہیں ۔پشاور کے مرحوم شاعر ساحر مصطفائی نے کیا خوب کہا ہے کہ ” جو فاقہ کش ہیں ہمیشہ وہ فاقہ کش ہی رہیں ۔ کسی کتاب میں ساحر کہیں لکھا تو نہیں“۔ مکان مالک نے کہا ہے کہ تم ایڈوانس کی رقم کرایہ کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ اگر کرایہ دار تھانے میں جا کر شکایت کرے کہ مجھ سے مالک مکان کرایہ زبردستی وصول کر رہاہے تو اس پر مالک کو تو شاید سزا ہو جائے مگر اگلے مہینے کرایہ دار کو اپنا بوریا بستر اٹھا کر اپنے لئے نیافلیٹ ڈھونڈنا ہو گا۔پھر کرایہ دار کوہر طرح کے بل کی ادائیگی بھی تو کرنا ہے ۔

 اس کا پرسانِ حال کون ہے ۔ ریاست ماںہے مگر ماں کو قید خانے کے تہہ خانے میں بند کر دیا گیا ہے ۔ چند لوگ اس کو حیلے بہانے سے گور میں اتارنا چاہتے ہیں ۔جتنے نئے قانون موجودہ دور میں بنے ہیں وہ ورلڈ ریکارڈ ہے ۔مگر افسوس تو عمل نہ کروا سکنے پر ہے ۔اب کرایہ دار کو کون تحفظ دے ۔ کس کرایہ دار نے تھانے جا کر مالک مکان کی شکایت کی ۔شکایت کرے تو جان سے نہ جائے مگر کرایے والے گھر سے ضرور جائے گا ۔ سو کرایہ تو دیناہے ۔ افسو س ہوتا ہے کہ بندہ زندہ کیوں ہے ۔ اس معاشرے میں کہ جس میں غریب آدمی کی قدر ہی نہیں ۔جس کرایہ دار کی میں بات کر رہاہوں وہ ایک تو نہیں اس جیسے ہزاروںہیں جو کرایہ کے مکانات لئے بچوں کے سر پر اپنے انداز میں ایک چھت سی تان کربیٹھے ہیں ۔ جن کو مالک مکان ہر مہینہ کی پہلی تاریخوں میں اپنے منشی کو بھیج کر ستاتا ہے ۔ اس کے اپنے گماشتے ہیں جو رعب ڈالنے کے لئے ہر فلیٹ کے گیٹ پرکھڑے ہو کر کرایہ طلب کرتے ہیں۔