سیدمنورحسن کاانتقال

 جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیرسید منور حسن جوکئی دنوں سے صاحب فراش تھے اورجمعتہ المبارک کے روز خالق حقیقی سے جاملے تھے ، ان کی نماز جنازہ ہفتے کے روز جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کی امامت میں اداکی گئی جس میں ملک بھر سے جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کے ہزاروں کارکنان اور عہدیداران کے علاوہ عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔یاد رہے کہ سید منور حسن اگست 1941 میں دہلی کے ایک تاریخی محلے قرول باغ کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم برصغیرکے بعد وہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جیکب لائین کے ایک مقامی سکول سے حاصل کی۔ انہوں نے 1963 میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی اور1966 میں ایم اے اسلامیات کی ڈگریاں حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سید منور حسن صاحب جن کی پرورش ایک مذہبی گھرانے اور تحریک پاکستان میں سرگرم کردارادا کرنے والے خاندان میں ہوئی تھی ابتدائی زمانہ طالب علمی میں بائیں بازو کی عالمی ترقی پسند تحریک اور اس تحریک کے بانیان کارل مارکس، ٹراٹسکی اور لینن کے نظریات سے اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ وہ نہ صرف اس دور کی معروف ترقی پسند طلباءتنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے تھے بلکہ اس میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ انہیں جلد ہی اس تنظیم کے کراچی یونٹ کا صدر بھی بنادیا گیا تھا۔یاد رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں این ایس ایف کابڑا شہرہ تھا اور یہ تنظیم بالکل ان ہی خطوط پر کام کررہی تھی جس کے خدوخال اس نوجوان انقلابی کو کارل مارکس اور لینن کے اشتراکی لٹریچر میں دکھائی دیئے تھے۔

دوسری جانب حیران کن امریہ ہے کہ سید منور حسن ایک ایسے وقت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی انقلابی فکر سے متاثر ہونا شروع ہوئے جب وہ این ایس ایف کے پرچم تلے پاکستان سمیت پورے ایشیا کو سرخ کرنے کی راہ پر گامزن تھے۔دراصل ان کی زندگی میں 180درجے کی یہ تبدیلی اس وقت آنا شروع ہوئی جب وہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سوشیالوجی کے طالب علم تھے اورانہیں یہاں اگر ایک جانب اسلامی جمعیت طلباءسے وابستہ نوجوانوں کے قول اور بے داغ کردارمیں واضح یکسانیت نے اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کیا تودوسری طرف یہ مولانا مودودی کے اثر انگیز انقلابی لٹریچر کا کمال تھا کہ نوجوان انقلابی سید منور حسن حق کی جستجو اور تلاش میں اس حد تک آگے جاچکے تھے کہ جب انہوں نے مڑکردیکھا تووہ نہ صرف اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکے تھے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے آئندہ دو برسوں کے دوران 1964 میں اس منظم ملک گیر طلبہ تنظیم کے مرکزی قائد یعنی ناظم اعلیٰ بھی منتخب ہو چکے تھے۔سید منورحسن کی جماعت اسلامی کے ساتھ عملی رفاقت کاآغاز 1967 میںہوا جب کہ آپ نے انتخابی سیاست کا عملی آغاز 1977 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑکرکیا جس میں آپ نے بطور امیدوارقومی اسمبلی کے کسی بھی حلقے پر پاکستان بھر میں کسی بھی امیدوار سے سب سے زیادہ ووٹ لے کرریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ 1992 میں آپ کو جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔

مارچ 2009 میں قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن پانچ سالہ ٹرم کے لئے جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔ یہ منور حسن ہی تھے جنہوں نے ماضی کے امراءکی پالیسیوں کے برعکس 2013 کے عام انتخابات میں کسی انتخابی اتحاد کا حصہ بننے کی بجائے جماعت اسلامی کی شناخت اورانفرادیت کوبرقرار رکھتے ہوئے اس کے انتخابی نشان ترازوپرتن تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا،گو ان کا یہ فیصلہ جماعت کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوااور جماعت کو ان انتخابات میں تاریخی شکست کاسامنا کرنا پڑاجس پر آپ نے بحیثیت امیر نہ صرف کھل کراس ناکامی کی ذمہ داری قبول کی بلکہ دوقدم آگے بڑھ کر ملک میں ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھتے ہوئے امارت سے استعفے کی پیشکش بھی کی لیکن مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیااور انہیں بطور امیر کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ سید منور حسن کو قریب سے جاننے والے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جو کام بھی کرتے تھے کشتیاں جلا کر کرتے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی زندگی میں اگر ایک طرف تصنع کا شائبہ تک نظر نہیں آتا دوسری جانب ان کے مزاج اور خیالات میں پائی جانے والی ہم آہنگی بھی اس بات کاپتا دیتی ہے کہ ان کے قول وفعل میں رتی برابر بھی کوئی تضاد نہیں تھاجسے آجکل کی سیاسی اصطلاح میں مصلحت اور سیاست کی بنیادی ضرورت سمجھاجاتا ہے ۔