ایک تو دن کی روشنی ہوتی ہے ‘ مگرہر چیز دن کی روشنی میں نظر آ بھی نہیں سکتی ‘بعض چیزوں کو دیکھنے کے لئے دل کی روشنی چاہئے‘وہ اچھائیاں برائیاںجن کواپنا کر اور ترک کر کے ان سے فائدہ لے سکتے ہیں‘مگر یہاں تو آنکھوں والے بھی نابینا ہو کر گھوم رہے ہیں ‘جو آنکھ دن کو روشنی میں دیکھ سکے وہی تو آنکھ نہیں کہلائی جا سکتی ‘ اصل بینائی وہ ہے جواچھائی برائی میں تمیز کر سکے‘ جو دن کو راستہ دیکھ کر چلتی ہے وہ بصارت ہے ‘جو آنکھیں بند ہو کر حقیقت پر غور کرتی ہےں وہ بصیرت والی نگاہیں ہوتی ہیں ‘ہم میںاکثر لوگ عقل کے اندھے ہیں‘ دیکھتے تو ہیں مگر حقیقت پر ان کی نظر نہیں جاتی‘میں اصل میںیہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں وائرس میں لوگوں کو یہ ہنر بھول گیا ہے کہ ہمارا بھلا کس کام میں ہے‘ کوروناکو یہ لوگ سیریس نہیں لے رہے ‘ دھرا دھڑ دھوم دھام سے شادیاں ہو رہی ہیں ‘ ولیمے اور بارتیں ہیں ‘مگر چھپ چھپا کرگھروں میں ہیں ‘ شادی کارڈ تقسیم ہورہے ہیں‘ پھر کمال یہ کہ وہا ںباراتوں کے رش میںباوردی افراد بھی دکھائی دیں گے‘جو خدا جانے کس کام کی غرض سے وہاں پائے جاتے ہیں ‘مگر جہاں تک شادی رکوانے کی بات ہے یہ پا پیادہ یہ کام تو کرنے سے رہے ‘پشاور میں بھی اور شہر کے باہر سے بھی شادی بیاہ کی تقریبات کی خبریں آ رہی ہیں‘ مگر کیا کریں بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی احتیاط کادامن تھام کر جانا ہی پڑتا ہے ‘ دور دور ہی سہی اور ماسک پہن کر کسی سے ہاتھ نہ ملا کر اور جلدی کھاناکھا کر لوٹنا پڑتا ہے ‘ کبھی اس بات کو بھی نوٹ کرنا پڑتا ہے کہ مجھے ولیمے میں اس وقت جانا چاہئے جب رش نہ ہو ‘ یا اگر شادی نہ ہو تو کسی کے سوئم یا چہلم پر نہ جا¶ تو وہ خاندان سے نکالتے ہیں ‘ خوشی کبھی پرانی تو نہیں ہوتی چلو بعد میں چلے جائیں گے ‘مگر غم پر یاکسی دکھ کے موقع پر تو جانا ہوگا‘ گھر میں سے سب نہ سہی مگر ایک بندہ تو اس محفل کی بھگتان کرے گا‘ وہی تو کورونا کو گھر لے کر آئے گا اور باقیوں کو بھی لگا دے گا ‘اس لئے کورونا سے بچنابہت مشکل ہوا جا رہاہے۔
سو خیال سے اور دھیان سے جانا ہے ‘اس معاملہ میں بعض حضرات بہت سخت دل واقع ہوئے ہیں ‘ شادی چھوڑ میت میں بھی بالکل نہیں جاتے‘ مگر خدا بچائے جب ان کے سر پرآتی ہے تو دو چار بندے تو ضررو ان کے پاس جمع ہو جاتے ہیں‘ میرے کہنے کامطلب ہے کہ ہماری ہاں کی رسمیں اور رواج ایسے قاتل ہیں کہ ہم چاہ کر بھی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ‘ جانا پڑتا ہے اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پڑتی ہے‘ ورنہ تو دوستی یاری تو خیر کیا کہیں مگر خاندان کے لوگ بھی تو برا مناجاتے ہیں اور آپ کے گھر آنا جانا چھوڑ دیتے ہیں ‘ ان کو کیسے سمجھائیںکہ اس وبا نے تو کسی کوکہیں کا نہیں چھوڑا ‘ خدارا اس کو سنجیدہ لیں اور شادیوں بیاہوں میں میتوں پرذرا قدم روک کر جائیں‘شادی ہال بند ہیں تو کیا ہوا کوئی خاص بات نہیں‘کیونکہ بض افراد کے گھر اتنے بڑے ہیں کہ جن میںچار ولیمے ایک وقت میں نپٹائے جا سکتے ہیں ‘ چار دیواری میں چھپ چھپا کر شادیوں کے جشن منائے جاتے ہیں۔
ہم تو جائیںگے مگر ڈر ڈر کر اور پیچھے ہٹ کر جائیں گے‘ مگر جانے والے توجوق در جوق جا رہے ہیں ‘ پہلے گھروںمیں شادیاں ہوتی تھیںاو رشادی ہالوںکا تصور نہ تھا مگر اب بھی شادی ہال اگر بند ہیں تو گھر وں کے دروازے ہر ایک کےلئے کھلے ہیں‘ کوئی ڈر جھجک ہی نہیں‘ نہ تو کوتوال کاڈر کہ وہ خود بھی ان خوشی کے مواقع پر کھانے کے خوانچوں کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ‘ اگر سامنے نہ سہی تو ساتھ والے گھر کی بیٹھک میں اگر باوردی نہ سہی توسادہ کپڑوں میںکہ کوئی پہچان نہ پائے‘ جب باغبان آسمان کی بجلیوں کے شراروں سے مل جائیں تو باغوں کو آگ لگ جانا آسان ہو جاتا ہے‘شہروں میں یہی کچھ ہے اور گا¶ں کے علاقوں میں بھی یہی تماشا ہے ‘ آپ کہیں گے شہر میں شاید اس نئے انداز کے وائرس کا کوئی لحاظ رکھا گیا ہوگا ‘ مگر شہر والے گا¶ں والوں سے دوہاتھ آگے ہیں اور گا¶ں والے شہر والوں سے چار ہاتھ آگے ہیں۔