فیس بک پرغوبل

 شہر کے اندر گٹر اُبل رہے ہیں۔ وہ بدبو اور تعفن ہے کہ دم گھٹتا ہے ۔بندہ تفریح کے نام پر اگر کوئی سرگرمی انجام دے تو ہر طرف سے سرانڈ ناک میں دم کئے دیتی ہے ۔لگتا ہے یہ گند گریل صاف ہونے والا نہیں اور نہ ہی جلد ہی اس کے ستھرا ہوجانے کی نوید ہے ۔ بلکہ اس میں تو روز برو اضافہ ہو تا جارہاہے ۔لیکن جب تلک کہ خود صارفین اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کریں گے یہ گند جو مچا ہوا ہے ختم ہونے والا نہیں۔ میری مراد فیس بک کے سیاسی گٹر کی ہے جو ایک بھی تو نہیں ہے ۔کئی ہیں اور ابلتے پڑے ہیں ۔لبالب بھر کر اپنے کناروںسے باہر آ رہے ہیں ۔کسی صارف میںکوئی برداشت ہی نہیں ۔ اک دوسرے کے پیچھے پڑے ہیں اور ہا تھ دھو کر پڑے ہےں بلکہ ہاتھ منہ دھوکر پڑے ہیں۔شاید کورونا کے وائرس کے لئے جو ہاتھ دھونے کو کہا گیا ہے تواس پرلوگ اگر اصلی نہیں تو فیس بک کے انداز میں عمل کرکے اپنے اچھے شہری ہونے کا ثبوت دینے کی ناکام کوشش کر تے ہیں ۔بڑں کی عزت چھوٹوں سے پیار کا زمانہ تو لگتا ہے گذر ہی گیا ہے ۔ فیس بک کے پیج پر تو قوم کی قوم دشمن ہوئی جاتی ہے اور بندہ بندے کے پیچھے پڑاہے ۔کوئی کسی کو معاف کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ برداشت بولو تو رتی برابر نہیں ۔ جہاںایک بار کسی پوسٹ پر کمنٹ کرنے کودل کرتا ہو وہاں چار بار اپنا تبصرہ ریکارڈ کروا کے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ پھردل ٹھنڈا نہ ہو تو گالی گلوچ اور اوپن قسم کی بد زبانی اختیار کر لیتے ہیں ۔جسے پڑھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے ۔کیونکہ فیس بک پر صرف مرد حضرات تو نہیں ہیں ۔

تہذیب اچھی چیز ہے جو گھرسے ملتی ہے ۔اگر نہ ملے تو دنیاکے کسی کونے میں بھی یہ نایاب جنس وجودنہیں ۔اتنی ناپید کہ اس کو تلاش ہی نہیں کیا جاسکتا اور اتنی آسان ہے کہ گھر ہی میںمل جاتی ہے ۔آج کل سیاسی پارٹیوںکے نمائندے اور فین ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہیں ۔ یوں کہ جیسے چیتا ہرن کے شکار کو اچھلتا کودتا پھلانگتا بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اسے پکڑ ہی لیتا ہے۔ پھر جب تک اس کا دم نہ نکال لے اس کو اپنے غصیلے دانتوں تلے دبوچے رکھتا ہے ۔صرف سیاسی پارٹیوں کا ہی رونا تو نہیں ۔ یہاں تو او ربہت مسائل ہیں۔ ایک بندہ بغیر ثبوت کے دوسرے پر الزام لگاتا ہے ۔ وہ نہ تو شرماتا ہے اور نہ ہی اسے لاج آتی ہے کہ میں کر کیا رہاہوں۔دوسرا ثبوت کے سات مخالف لیڈر پر الزام تراشی کرتا ہے ۔بس ایک میدان گرم ہے ۔ ان دنوں موبائل میں سب سے زیاد جو سائٹ مقبول ہے اور استعمال میں ہے وہ فیس بک ہے ۔ فیس بک کو ایک اکھاڑہ سمجھو۔ یا شاہی باغ پشاور میں ہونے والے فٹ بال کے عوامی میچ جان لو ۔ جس کو غوبل کہا جاتا تھا۔ہر آدمی ایک ہی فٹ بال کو دائیں بائیں اوپرنیچے لاتیں مار رہاہے ۔غوبل اس میچ کو کہا جا تا جس میں دونوں ٹیموں میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نہیں ہوتے بلکہ جوجو آتا جاتا وہ گنجائش دیکھ کر اپنی پسندیدہ ٹیم میںشامل ہو تاجاتا ۔ یوں بائیس کھلاڑی میدان میں نہیں ہوتے ۔بلکہ ایک رش ہوتاہے جسے پشتو میں اس زمانے میں غوبل کی اصطلاح کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ فیس بک پر بھی یہ غوبل مچا ہوا ہے ۔

ہر آدمی کہ جو کس وناکس ہے اس میدان میں اپنا زورِ بازو آزمانے نکلا ہے اور کمزور اور سوکھا پتلا ہو کر بھی پہلوانوں سے لڑنے کی کوشش میںفٹ بال کی طرح یہاں وہاں گرتا ہوا کسی اور کے نرغے میں چلا جاتا ہے اور کسی غیر کے ہتھے چڑھ جاتاہے ۔پھر اس کی وہ دھلائی اور دھنائی ہوتی ہے کہ اسے نانی یاد آجاتی ہے۔لیکن وہ جو سمجھ دار چالاک ہیں فیس بک پر کمنٹ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔مگروہ جو ناسمجھ ہیں کھلم کھلا کمنٹ کر کے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اپنے آپ کو اندر سے باہر لے آتے ہیں کہ میرے اندر انسان نہیں غیر انسانی خصلتیں موجودہیں ۔اگر ہم تہذیب کے دائرے میں رہیں تو کتنااچھا ہے ۔ تمیز کو ہاتھ سے جانے نہ دیں تو کتنا بہتر ہے ۔ اخلاق کو اپنا لیں تو کتنا اچھا ہے ۔فیس بک کا میڈیا توہمارے اندر کے انسان کو ظاہر کرنے لگا ہے ۔نفسیات کا علم پڑھنے والااور اس پر کام کرنے والا یا نفسیات کی مشق کرنے والا ۔ ا س کو فیس بک پر سے اپنی ریسرچ کی خاطر خوب مواد مل سکتا ہے ۔ اگر بندہ کو شناخت ہو تو فیس بک کے چہروں کے پیچھے چھپے ہوئے اچھے برے دونوں قسم کے انسانوں کو خوب جانا پہچانا جا سکتا ہے ۔مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ فیس بک برا نہیں۔اس پر کم از کم اپنے خیالات کے اظہار کا موقع تو ملتا ہے اور جتنی آزادی رائے یہاں ہے اور کہیں نہیں ۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر قدرت نے زبان دے رکھی ہے تو بندے کے جی میں جو آئے وہ کہہ دے اور علی اعلان کہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا کو سوشل کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ یہاں پر جو حالت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ دیکھا جائے تو قوانین اور قواعد سے زیادہ لوگوں کا اپنے آپ پر کنٹرول اور اپنے رویے کی اصلاح اہم ترین ہے جس کیلئے ہم تیار نہیں اگر اوپر سے قوانین لاگو ہو جائیں تو پھر شاید قبلہ درست ہوجائے تاہم پھر وہی لوگ جو اب ا س میڈیا کے بے لگام ہونے کا شکوہ کرتے ہیں پھر ان قدغنوں اور قواعد پر تنقید کریں گے کہ کیوں ایک آزاد میڈیا پر پابندی لگائی گئی ہے ۔ یعنی کچھ کرو تو بھی شکوہ اور کچھ نہ کرو تو بھی شکایت۔۔