جنوبی افریقہ کی تاریخ آزادی حاصل کرنے کی اک طویل جدوجہد کا نام ہے جو نمایاں نام ابھر کر سامنے آتا ہے وہ نیلسن منڈیلا کا ہے جس کی تقریباً آدھی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر گئی اور جیل کے باہر ایک عورت اس آزادی کی شمع کو زندہ رکھنے کی پاداش میں بے شمار صعوبتوں اور مشکلات کا شکار ہوتی رہی۔ نیلسن منڈیلا کی ملاقات ونی منڈیلا سے ایک بس سٹاپ پر ہوئی جب وہ صرف 22سال کی تھی اور بحیثیت ایک سوشل ورکر کے ہسپتال میں کام کرتی تھی اسکا نظریہ بھی نیلسن منڈیلاکی طرح انقلابی تھا وہ کہا کرتی تھی کہ میں اس غربت اور اس میں رہنے والی ان مجبوریوں کو جانتی ہوں جہاں بار سوخ اور امیر لوگ ایسا سسٹم بناتے ہیں کہ ان کے معاشروں میں غریب پیدا ہوں اور غربت میں زندگی گزاریں1957 ءمیں نیلسن منڈیلاکے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات 1958 میں ان کی شادی کا سبب بنی، ونی منڈیلا کے باپ کو یہ شادی خوش نہ کرسکی اسے معلوم تھا کہ نیلسن منڈیلا افریقن نیشنل کانگریس کے بینر تلے جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں میں شامل رہتا ہے اور اسکی بیوی کا بھی مقدر جیل کی سلاخیں یا مشکلات ہوں گی لیکن ونی منڈیلا بے انتہا جرات مند لڑکی تھی اس نے نیلسن منڈیلا کی مشکلات بھری زندگی میں شامل ہونا چاہا تھا۔ 1961ءمیں افریقہ میں گوروں کے خلاف احتجاجی شدت کے بعد گوروں کی طرف سے بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا مجبوراً نیلسن منڈیلا کو زیر زمین چھپ جانا پڑا لیکن کب تک نیلسن منڈیلا 1962ءمیں جیل چلا گیا۔
1963ءمیں رہائی پانے کے بعد1964 میں جیل پھر اسکا مقدر ٹھہری۔ اس دوران ان کی دو بیٹیاں اس دنیا میں آچکی تھیں ۔اس پر مقدمہ چلا اور اس نے اپنے ان خوابوں کو حاصل کرنے کی خواہش کا ا ظہار کیا جسکا راستہ آزادی کی منزل کی طرف جاتا تھا اور جو گوروں کو سخت ناپسند تھا نیلسن منڈیلاکو تاحیات قید کی سزا سنادی گئی۔ ونی منڈیلا جو اپنے انقلابی شوہر سے بے انتہا پیار کرتی تھی اس نے شروع کے سالوں میں بے انتہا کوشش کی کہ وہ رہا ہو جائیں۔نیلسن منڈیلا اپنی خوبصورت کتاب اے لانگ واک ٹو فریڈم میں ونی (winnie) کی ان کوششوں کا ذکر کرتا ہے جب وہ ہر پیشی پر اس کے لئے نئے کپڑے لایا کرتی تھی ۔ نیا حوصلہ دیا کرتی تھی ۔ جب یہ کتاب میں اسلام آباد کے ایک ہاسٹل کے کمرے میں کتاب کی اپنی تشنگی مٹانے کو کتنی ہی راتوں تک میں پڑھتی رہی تھی تو مجھ پر ایک عورت کی صحیح جدوجہد کی کہانی عیاں ہوئی تھی کہ جب اسکا شوہر جیل میں ہو باہر کی زندگی انگریز جیسی شاطر قوم نے عاجز کر رکھی ہو۔ گود میں دو معصوم بچیاں ہوں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ صعوبت کسے کہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو کسی لیڈر کی بھی ضرورت ہو بہادر لیڈر جو ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا جانتا ہو۔ ونی منڈیلا جنوبی افریقہ میں اس وقت ایک بہترین رہنما کے طور پر کالی نسل کے لوگوں میں بہادری اور جرات کی مثال بن کر کھڑی تھی۔ وہ اپنے شوہر کو جیل سے رہا کروانے میں ناکام ہوگئی لیکن اس نے جنوبی افریقہ کے حکام کے سامنے آزادی کی یہ شمع ہر روز جلائے رکھی شاید نیلسن منڈیلا جیل سے باہر ہوتا تو بھی جدوجہد کی اتنی بڑی داستان رقم نہ کرنا جتنی ونی منڈیلا کے حوصلوں اور ہمت نے رقم کی۔ دن میں چار چار مرتبہ اس کے گھر پر چھاپہ مارا جاتا اور ہر مرتبہ اس کو جیل جانا پڑتا۔ اسکی چھوٹی بچیاں چیختی چلاتیں لیکن کسی کو ان پر ترس نہ آتا۔
نیلسن منڈیلا تو صرف جیل کی سلاخوں کے پیچے تھا لیکن جیل کے باہر بھی ۔اک جہنم تھی جس میں اسکی بیوی ونی منڈیلا دو بیٹیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم کرچکی تھی۔ 1977 میں متوقع احتجاجی مظاہروں اور کالوں کی خطرناک ترین جدوجہد کی وجہ سے نیلسن منڈیلا کو رابن آئی لینڈ منتقل کردیا گیا ایسا آئی لینڈ جسکے چاروں طرف سمندر اور باہر کی دنیا کے لئے رسائی کا کوئی راستہ نہ تھا۔۔ ونی منڈیلا کو بر نیٹ فورڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں زبردستی بجھوا دیا گیا اس پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ جوہانسبرگ سے کہیں اور نہیں جاسکتی۔ اور ایک وقت میں صرف ایک شخص سے گفتگو کرسکتی ہے اور یہ پابندی کوئی ایک مہینہ یا دو مہینہ کے لئے نہیں تھی بلکہ 13 سال تک رہی۔ 1967ءمیں ایک نیا قانون صرف ونی منڈیلا کے لئے بنایا گیا جسکی رو سے اسکو بغیر وارنٹ کے کوئی قصور بناتے ہوئے اسکو قید کردیا گیا اور کسی بھی قسم کی قانونی مدد سے بھی وہ محروم ٹھہرا دی گئی اس کو ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں رات دن ایک چھوٹا سا بلب جلتا رہتا تاکہ اسکو رات اور دن میں کوئی تمیز نہ ہوسکے۔ راتوں تک مسلسل جگائے رکھنے پر مجبور کیا جاتا کہ وہ قیدیوں کا شور و غل سنے اور اس حالت میں وہ 17 مہینوں تک رہی ۔ برینٹ فورڈ کے قصبہ میں تمام لوگوں کے لئے یہ حکم تھا کہ ونی منڈیلا سے کوئی بھی بات نہیں کرے گا۔ ورنہ وہ سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے گا ۔ ایسے حالات میں وہ انقلابی لیڈر بے انتہا جذباتی ہوگئی وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتی تھی اسے اپنی جان کی کوئی پرواہ تک نہ تھی افریقہ کے کالی نسل کے لوگ اس کے پیچھے جمع ہوتے گئے اور آزادی کی جدوجہد طول پکڑ گئی اور اتنی گھمبیر ہوگئی کہ حکام کو قوانین میں ترمیمیں کرنا پڑیں۔ اسی انقلابی جدوجہد میں اسکی ملاقات ایم کے میلانن سے ہوگئی جو اس کو حوصلہ دیتا اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی تلقین کرتا۔ نیلسن منڈیلا اس شخص کو اس لئے پسند کرتا تھا کہ وہ اسکی بیوی کو حوصلہ دیتا ہے وہ اب خصوط میں میک میلانین کو لکھتا ہے کہ وہ ونی منڈیلا کو سمجھائے کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر پرامن سیاست کرے۔ میک میلانین ونی منڈیلا کے لئے عقیدت سے زیادہ جذبات رکھتا تھا وہ اس کو پسند کرتا تھا۔ 1980 ءکی دہائی میں ایم یو ایف سی کی ایک تنظیم بنی یعنی منڈیلا یو نائیٹڈ فٹ بلا کلب کے کھلاڑیوں نے ایک فورس بنائی جو ونی منڈیلا کی حفاظت کرتی تھی اور جنوبی افریقہ کے کالے لوگوں کے لئے حکام کے سامنے ایک ڈھال بن گئی۔ یہ ایک پرتشدد تنظیم تھی جو گوروں کو نقصان پہنچانے کے عزم پر یقین رکھتی تھی چونکہ ونی منڈیلا ان کی سرپرست تھی اس لئے ان تمام پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار ونی منڈیلا کو بھی ٹھہرایا جاتا ہے جو یہ تنظیم کام کرتی تھی ونی منڈیلا کی تقاریرمیں اب جلنے جلانے اور مرنے مارنے کی باتیں ملتی تھیں۔
جج نے ونی منڈیلا کو سزا دینے سے معذوری ظاہر کردی کیونکہ وہ جنگجو انقلابیوں کی موجودگی میں ونی منڈیلا کو چھو بھی نہیں سکتے تھے۔ یونائیٹڈ فٹ بال کلب کے گارڈز نے تین گورے لڑکوں کو اغواءکیا اور صرف ایک سال بعد ان میں سے ایک لڑکے کو جلا دیا گیا۔ اس کے قتل کے ذمہ داروں میں ونی منڈیلا کو بھی ٹھہرایا گیا ۔ یہ وقت تھا جب نیلسن منڈیلا 26 سال کے بعد جیل سے رہا ہوئے، ونی منڈیلا کی اپنے قائد شوہر کے ساتھ تصویر اسکی خوشی اور فخر کو ظاہر کررہی تھی۔ نیلسن منڈیلا جیل سے باہر آکر یونائیٹڈ فٹ بال کلب کے اندرونی مشاغل سے واقف ہوئے اور گورے لڑکے کا قتل جسکا اب مقدمہ عدالت میں تھا ونی منڈیلا اور نیلسن منڈیلا کے جھگڑوں کا سبب بنا۔ عدالت نے ونی منڈیلا کو گورے لڑکے (سٹومی روکسی) کے بالواسطہ قتل میں چھ سال کی قید سنائی اور نیلسن منڈیلا نے بھی اپنی بیوی کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے طلاق دے دی اور ونی منڈیلا آج اپنی ان جوان بیٹیوں کے ساتھ تنہا ہوگئی جنہوں نے ظلم و بربربت میں پرورش پائی تھی۔ ونی منڈیلا نے نیلسن منڈیلا کے نوبل انعام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جنوبی افریقہ کی آزادی ونی منڈیلا کی کوششوں سے ہوئی ہے اسکا کہنا تھا کہ آزادی کی جدوجہد میں کی جانے والی باتوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے میں نیلسن منڈیلا کی لیڈر شپ کو ماننے سے انکار کرتی ہوں اور جب تک نیلسن منڈیلااقتدار میں رہے وہ حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ونی منڈیلا اپنی زندگی میں 23 سال سے زیادہ تک قید و بند نظر بندی اور جلا وطنی کی صعوبتیں گزارتی رہی اورآخر 92 سال کی عمر میں اپنی ان تھک محنت کو الوداع کہا اور پرسکون نیند کے لئے قبرستان کی مٹی کے ساتھ دوستی کرنے چلی گئی۔