میں وزیراعظم بنوں گی!

 وہ کہتی ہے کہ میں سیاستدان بنوں گی۔پھر پاکستان کی وزیرِاعظم بننے کا بھی سوچ رہی ہے ¾سوچتی رہے سوچنے سے کیا ہوتا ہے اگر اس طرح ممکن ہوتا تو ہم برطانیہ کے وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھتے۔اس لئے کہ وہاں کی سیاست کے سینے میں اگر دل ہے تو احساس بھی ہے۔ پھر صاف ستھری سیاست ہے ۔ہمیں تو یہ ملال ہے کہ ہم اپنے ہی علاقے کے کونسلرہی نہ ہوئے۔مگر ناظم بھی ہو جاتے تو کیا ہوتا کچھ بھی تو نہیں ۔ ہاں کبھی کبھی اپنے اختیارات کے چھن جانے پر نادم تو ہوا کرتے۔ملالہ کو اس میں خوشی حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں آئے گی تو شاید ہماری طرح اسے بھی خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں ۔باوا جی یہ سیاست ہے ۔سیاست کے سینے میں اول تو دل ہی نہیں ہوتا ۔پھر ہمارے ہاں کی سیاست کے سینے میں تو جگر بھی نہیں کہ دوسرے کی بات برداشت ہو سکے یہاں تو پارلیمان مجمع عام ہے ¾لڑائیاںمارکٹائیں ہیں ¾وزیروں کی پنچایت میں ایک سوٹ پہنے بڑی بڑی مونچھیں رکھے بندہ کوٹ کو کھول کر اتارنے کی کوشش میں کہتا ہے کہ تو پھر آلڑتے ہیں ۔ایسے عالم میں باقی کیا بچتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاس پہلوانوں کا اکھاڑہ بننے لگے تو ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگ تو آگئے نا پھر شیروں کے نرغے میں۔خواہ مخواہ سیاست دان بن کر اپنے آپ کو لوگوں کے منہ میں دینے کی ضرورت کیا ہے ۔

کیوں نہ آرام سے گھر میں بیٹھے رہیں۔ اب تو کوئی الزام لگانے والا بھی نہیں ۔ورنہ ہم کہیں حکومت کاحصہ ہوتے تو ان دنوں سمارٹ لاک ڈان میں ہمیں عوام کو چھوڑ کرپولیس پر نظر رکھنے کے لئے گھر سے باہر قرنطینہ سے دور جا کر رپٹ درج کروانا پڑتی ۔ پھر یہ ایک دن کا تو کام نہ تھا روز کے روز حساب جمع کروانا پڑتا۔ جب سے پیدا ہوئے تب سے ٹافیوں اور سنگتریوں کے خریدنے کی منی ٹریل دینا پڑتی کہ پیسے کہاںسے لائے کس نے دیئے اگر باپ نے دیئے تو اس کو کس نے دیئے۔ پھر تمھارے ہاتھوں میںکس نے پہنچائے۔ ہماری یادداشت کام ہی نہیں کرتی ۔ جو جہاں رکھتے ہیں اٹھانا بھول جاتے ہیں۔ عینک رشتہ داروں کے ہاں بھول جانے والے ہم جیسے لوگوں کے لئے اتنے بڑے اور پرانے حساب کتاب یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ¾ ہمیں تو سکول کا سبق تک یاد نہ ہو تا تھا کہ ہم آج اگر رٹہ ماری سے کام لیتے تو کسی بڑے ادارے کے بڑے افسربن جاتے ¾اب رانا ثنا ءاللہ نے کیا پایا ۔ اگر چہ کہ حوالات او رجیل سے نکل آئے ¾بے گناہ سہی مگر مفت کی تہمتیں تو حصے میںآئیں ¾وہ عمر کاحصہ جو جیل میں گذارا اور عبث گذارا اس کاحساب کون لے گا ¾ کون اس بے گناہی کا انعام دے گا¾ہماری سیاست میں تو کیچڑ اچھالنے کے سوااو رکیا رکھا ہے ¾نہ باواجی نہ ا س سیاست سے تو ہماری توبہ جس میں کالے کپڑوں پر سفید داغ بھی لگ جاتے او رپھر لانڈریاں بھی نہیں ملتیں کہ وہاں کالے کرتوت دھوئیں ۔ اب تو لانڈریاں بھی بند ہیں اور باہر کے ملکوں میں شفٹ ہو گئی ہیں جہاں ہم جیسے لوگ جا کر سرِ بازاردھلائی کروا رہے ہیں۔

¾سیاست دانوں کا حشر کسی نے کیا نہیں دیکھا ¾ کسی نے آپ سے نہیں کہا ¾اگر نہیں کہا نہیں دیکھا تو گوگل سرچ کر لو اور دیکھو کہ یہاں کے وزارتِ عظمیٰ کے شوقین لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ¾ اس تمنا کے رکھنے والوں کوتو کبھی تاریک راہوں میں مار دیا گیا اور کبھی سرِ عام روشنیوں میں جلوس کے اندر گاڑی سے باہر سر باہر نکالنے کے الزام میںدنیا سے فارغ کر کے واپس بھیج دیا گیا¾ کبھی سرِ عام خود اپنے خون کے رشتوں نے محبت کے سب دھاگے توڑ کر سفید تلواروں کے سائے میں پولیس کی کلاشنکوفوں سے آگ والی روشنیوں کے آگے لڑھکا دیا کہ اس کو بھی ساتھ بھون ڈالو ¾اس سیاست میں آنے سے پہلے ہزار بار سوچو ¾مگر ہمارے شوقین لوگ بھی عجیب ہیں اور سیاست میں آنے سے پہلے سب کام کرتے ہیں ¾اب قدیر خان کا قصور ¾ اس نے سوچا ہے اور سوچ سوچ کر اب سوچ رہاہے کہ کیا کروں ¾ سونے کے پنجرے سے باہر کیسے جاں ¾ اب اس سے ملنا تو کیا خود کورونا اس کے معاملے میں بہت سخت ہے ¾وجہ یہ کہ اس سے ہاتھ ملانا تو چھوڑ فون پر بات کرنے سے بھی کورونا شفٹ ہوتا ہے ¾ایسے میں اگر ملالہ اس سلطنت کی سربراہ ہونے کا سوچ رہی ہے تو اس کی سوچ کے بارے خود ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس کی سوچ کو کیسے بدلیں۔ کیونکہ سنا ہے کہ وہ اپنی سوچ میں بہت مضبوط ارادے رکھتی ہے ۔سو یونہی سہی دیکھتے ہیں آگے کیاہوتا ہے ۔