کسی نے افواہ اُڑا دی ہے ‘پھر افواہ کے تو پر بھی نہیں ہوتے‘ سو بے پر کی اڑا دی ہے ۔ یہ کہ سیاحتی مقامات عام و خاص کے لئے کھل گئے ہیں حالانکہ سراسر غلط بیانی ہے ۔ سب کچھ بند ہے اگر یہ مقامات کھلے ہیں تو صرف مقامی لوگوں کے لئے جو وہاں کے باشندے ہیں مگر اس سے ہم میدانی علاقوں کے لوگوں نے غلط مطلب نکالا ہے اور دھڑلے سے اوپر نیچے گلیات کی سیر کو جا رہے ہیںحالانکہ صاف ہدایات ہیں کہ گھر سے نہ نکلو ۔ پھر یہ گھر سے نکلے بھی تو وہ سینکڑوں میل دور بادلوں سے گلے ملنے اور درختوں کے ساتھ پہاڑوں میں کھڑے ہو کر فوٹ شوٹ کرنے پہنچ گئے۔ سیاحتی مقامات بدستور بند ہیں ۔ مگر بندش کا یہ معنی نہیں کہ جگہ جگہ کنڈا تار لگا کر چاروں اور راستوں پر پہرے دار کھڑے ہوں ۔ یہ تو ہم نے خود محسوس کرنا ہے کہ جب گھر میں رہنے کو کہا گیا ہے تو سمارٹ لاک ڈان ہے تو اگر سودا سلف لینے نکلے تو جلد ہی گھر کو لوٹنا ہے ۔مگر ہمارے یار مہربان گھر سے نکلے بھی کہاں پہنچے وہ اوپر ہزاروں فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کے اوپر میدانی چمن زار کی سیر کو پہنچے۔کیا خوب کہا ہے فیض احمد فیض نے ” مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے “۔ہمارے ایک دوست اور افسر دانشور بھی کہہ لیںاپنا گاڑی بھر کے خیر سے نتھیا گلی گئے اور وہاں کی تصاویر فیس بک پر جاری کر دیں۔ کورونا وائرس کی تو خیر مگر ان کی اس حرکت بے برکت سے ایک اور وائرس نے جنم لیا ۔وہ یہ تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی آگے ان کے یار دوست اور رشتہ دار اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ سیاحتی مقامات کو عام سیر بینوں کے لئے کھول دیا گیا ہے ۔جس کی وجہ سے اس کے بعد فیس بک پر دوسرے مہربانوں کی تصویریں بھی اپ لوڈ ہونا شروع ہوگئیں۔ مزے سے بار بی کیو ہو رہے ہیں اور سیخوں پر چھوٹے گوشت کے تکے آگ پر رکھے چیخ رہے ہیں ۔پکنے پکانے کی ان آوازوں میں وہ لطف محسوس ہوتا ہے کہ مزید آگے بھی سیاحت کے شوقین حضرات کے دلوں میں یہ وائرس چٹکیاں کاٹنے لگا ہے ۔پھر دیکھا تو ایک اور سرکاری عہدیدار اور ملازمین کی تنظیم کے بڑے بھی آگ پر گوشت کی بوٹیاں بھونتے ہوئے پائے گئے۔
اس پر ان سے کسی بڑے صاحب نے پوچھا کہ یہ بتلا کہ کیا راستے کھلے ہیں اور آپ کس طرف سے کالام گئے۔ظاہر ہے کہ ہر ایک کا دل للچائے گا کہ وہ بھی ان گرمیوں کے موسم میں پہاڑی مقامات پر جا کر وہاں کی ٹھنڈی ہواں سے مزے لوٹے۔ انھوں نے اپنی پک کے ساتھ لکھا تھا کہ بارش کالام اور گرم گرم سٹے ۔ وہ درانتی لے کر کڑاہی میں بھٹے بھی بھون رہے تھے۔ باواجی اب تو لاک ڈان وہ نہیں رہا۔اب یہ کورونا وائرس صرف شہر میں تو نہیںاور ارضِ وطن میں ہے یہ تو پوری دنیا کی فضاں او رہواں میں ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پہاڑی علاقوں کے سرسبز درختوں اور پائیدار ہوا میں پل نہیں سکتا او رنہ پھیل سکتا ہے ۔ یہ وہ نامراد وبا ہے جس نے پہاڑوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے اور کوئی علاقہ کوئی پرگنہ گں گلی کوچہ کوئی گلیار چوک کوئی موڑ سڑک ہائی وے جنگل صحرا ویرانہ اس کی ستم گری سے خالی نہیں ۔اب نئی جو ویڈیو دیکھی ہے اس میں کاغان ناران جا کر وہا ںکے بہتے پانیوں کے کناروںسے ہر عام و خاص کو دعوت دی گئی ہے کہ یہاں آئیں ۔ جس نے اس علاقے کی خوبصورتی کو نہیں دیکھا اس نے تو دنیا میں کچھ نہیں دیکھا۔ بہتے دریا پھوٹتے چشمے پہاڑوں کی چٹانیں لوگوں کے سیر سپاٹے کے خیمے بادلوں کا جھک جھک کر پہاڑوں کے ماتھے کو بوسے دینا ایک سرخوشی کاعالم تھا ۔لیکن اگر ہم وہاں ہوتے تو ہمیں اُداسی آن گھیرتی۔ کیونکہ ہم سے قدرت کی خوبصورتی کو دیکھ کراسے اپنے اندر جذب کرنا نہیں آتا۔ ہمیں وہاں چپ سی لگ جاتی ہے ۔ ساحر لدھیانوی کا وہ قطعہ یا دآتا ہے ” دوروادی میں دودھیا بادل ۔جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں ۔ دل میں ناکام حسرتیں لے کر ۔ ہم ترا انتظار کرتے ہیں “۔ان گرمیوں کے لاک ڈا ن میں تو اوپری مقامات کے لوگ خود بیروزگار ہو گئے ہیں۔ ساتھ وہی وہا ں کے جنگلوں کے بندر بھی بھوکے ہیں جن کو سیاح بھٹے خرید کر اپنے ہاتھوں سے کھلاتے تھے۔