اگر اگست میں سکول کھولنے کا اعلان ہوا ہے تو ضروری نہیں کہ اسی تاریخ کو کھلیں۔کیا پتا یہ تاریخ ستمبر اکتوبر میں چلی جائے۔ کیونکہ وائرس کے وار شدید ہو رہے ہیں ۔ جب تک ویکسین تیار نہیں ہوتی یہ وائرس تو کہیں جانے والا نہیں ۔ یہ تو ہمارے بچوں کے ساتھ بڑا ہو رہاہے۔پھر اگر سکول بھی جائیں توبہت زیادہ تکلیف کا سامناکرنا پڑے گا۔ کلاس میںتیس بچے ہوں گے اور تین تین شفٹ چلیں گی۔ اتنا سٹاف کہاں سے آئے گا۔ بہت کچھ ابھی سوچنا ہے ۔جس پر عمل درآمد مزیدمشکل مرحلہ ہے ۔حکومت کے لئے بہت ٹف ٹائم ہے ۔ کلاسں میں ہر بچے کے درمیان گز بھر کا فاصلہ کیسے قائم رکھیں گے۔ کیونکہ بچے خود شرارتی ہوتے ہیں۔ پھر ان میں اتنی سمجھ بھی نہیں کہ یہ جان سکیں کوروناکس چڑیا کا نام ہے ۔تاکہ ایک دوسرے سے دور رہیں۔جب تک کہ سکول نہیں کھلتے۔ بچوں کو بہت کچھ گھر ہی پر سکھایا جا سکتا ہے ۔مگر اس میں خود بچوں کی دلچسپی ہو اور ماحول ایسا بنے کہ وہ خود پڑھےں۔ مگر یہ ایک مشکل ٹاسک ہے ۔ ایسا ممکن ہوتا تودنیابھر میں سکول ہی کیوں قائم ہو تے۔ بچے ہر قسم کی تعلیم گھر پر حاصل کرتے۔ بس گرہ پڑ گئی ہے ۔خیر سے یہ گانٹھ کھلے تو سکولوں کے دروازے جن پر موٹے موٹے تالے لگا دیئے گئے ہیں وہ بھی کھلیں اور ان کی بند قسمت بھی کھلے اور کہیں جا کر ماحول میں بہتری آئے۔بہت زیادہ غور کیا گیا ہے اور اب فیصلہ ہوا ہے کہ شاید ستمبر سے سکول کھلیں ۔ کیونکہ بچوں کی تعلیم میں بہت حرج ہوا ہے ۔ اب تووالدین بھی کہنے لگے ہیں کہ سکول کب کھلیں گے ۔
کیونکہ گھر بھی بچوںکا گھر بناہواہے۔ بچہ لوگ دل و دماغ پہ سوارہیں ۔والدین کہیں آنے جانے کے نہیں رہے ۔ پہلے تو وہاں بچوںنے سکول کی طرف موڑ کاٹی تو یہاں بعض گھرانوں میں مائیں شاپنگ کےلئے بازار کا رخ کرتی تھیں۔ مگر اب تو بچوںکے گھر میں ہونے کی وجہ سے ان کے اماں باوا اپنے کام کاج کی راہ میں بچوں کو رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔بچوں کو سکول عملے کے حوالے کر دیتے اور خود بے فکر ہو جاتے ہیں کہ چلو ٹیچروں کے سر چڑھ گئے ہیں اساتذہ جانیںاور انکی تعلیم جانے ہم انھیںفیس دیتے ہیں ان کے مستقبل کی فکر کرنااستادوں اور استانیوں کا کام ہے مگر بچوں نے اودھم مچا رکھا ہے یہ بھی سنا گیا ہے کہ سکولوں کی بندش سے تنگ آ کر شہریوں نے اپنی اولاد کو کسی کام کاج کسی کسب روزگار کے سیکھنے پر لگا دیا ہے تاکہ دو پیسے بھی ہاتھ آئیں اور بچے بھی کہیں کھپ جائیں مائیں یہ بھی کہتے ہوئے پائی گئی ہیںکہ میں تو کہتی ہوں اس لڑکے کوسامنے لوہار کے پاس شاگرد بٹھا دو کچھ نہ کچھ لے بھی آئے گا اور کام بھی سیکھ جائے گا ۔پھر آج کل ماں باپ بچوں کو آن لائن تعلیم میں کشش دلانے کو بہت کوشش کرتے ہیں ۔
بچے کو عام حالات میںبھی اگر کتابوں کی طرف راغب کرناہو تواپنے بچوں کو خاندان کے دوسرے پڑھائی میں کمزور بچوں کی یا زیادہ لائق بچوں کی مثالیں حسبِ موقع دی جاتی ہیں۔ مگر اب تو حال یہ ہے کہ بچے گھروں میں نہیں پڑھتے ۔ موبائل ٹی وی اور کمپیوٹر نے جہاں کام سنوارا ہے وہاں معاملہ بہت بگاڑا ہے ۔کورونا سے پہلے بعض بچے کون سا پڑھتے تھے کلاس میں شرارتیں کرتے رہتے جن سے اساتذہ بھی تنگ تھے ماں باپ کو شکایت کرو تو وہ کہتے کہ ہم نے تو آپکے حوالے کیا ہے ہم کس لئے فیس دیتے ہیں۔آپ ہی ان کو سنبھالیںاب کے جو طویل ترین چھٹیاں ملی ہیں تو وہ باقی کے بھی کام سے گئے۔ہر وقت ان گرمیوں کی تپتی دھوپ تلے گلی میں اورسڑک پر کھیلنا ۔ماں باپ کے گفتہ میں نہ ہونا۔ خیر مگرتب تلک آن لائن تعلیم کا سلسلہ آہستہ سہی مگر جاری ہے‘پھرسمجھ دار ماں باپ اور وہ بھی پڑھے لکھے والدین بچوں کو خودلے کر ٹی وی اور کمپیوٹر کے آگے بیٹھے ہیں اور تعلیم دلوا رہے ہیں ۔ مگر آن لائن سروس جتنی بھی بہتر ہو جائے کلاس کا اپنا ایک ماحول ہوتاہے اور دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر سیکھنے کا اپناایک اثر ہوتا ہے۔
کالج کی سکول کی عمارت کا بھی اس میں دخل ہے ۔اساتذہ سٹاف روم کلاس میں وائٹ بورڈ ہر چیز بچے کی نفسیا ت کے لئے بہت مدد گار رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے‘ پھر یہ بھی کہ بچے سے دوسرے بچے بھی سیکھتے ہیں ‘دوسری طرف پرائیویٹ سکول کے نمائندوں نے پریشر ڈال رکھا ہے کہ سکول کھولو اور شادی ہالوں کی تنظیم بھی بن گئی ۔ انھوں نے بھی دبا¶ڈال رکھا ہے ‘ہر ایک کے اپنے مسائل ہیں جنکا براہ راست تعلق روٹی پانی سے ہے‘ اب بعض نجی سکولوں کالجوںنے اس بار تو اپنے سٹاف کوآدھی تنخواہ بھی نہیں دی ۔کہتے ہیںہم بنک سے قرضہ لے رہے ہیں۔پھر آپ کو تنخواہ دیں گے۔ کیونکہ حکومت نے اس قسم کے اداروں کو سہولت دی ہے کہ اگر لاک ڈا¶ن کے کارن آپ کا بجٹ درست نہیں تو بنک آپ کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرے گا۔