برائے فروخت

 بازاروں میں قابلِ فروخت اور برائے فروخت والے مال کے تو انبار لگے پڑے ہیں ۔ایسی صورتِ حال میں گاہک بھی تو ٹی وی کی وجہ سے نیٹ کے کارن ہر چیز کی بولی سے باخبر ہیں ۔مگر افسوس کہ ان کے لئے برائے فروخت کے مال کو خریدنا ناممکن ہوا جاتا ہے ۔ جینادوبھر ہو رہاہے اور زندگی اجیرن ہے۔ٹماٹر ہیں تو اسی روپے اور چینی ہے تونوے روپے او رکیا چیز ہے جو گراں نہیں ہو رہی ۔ صبح اٹھو تو سکون کی نیند کے بعد فریش ہوناتو ہماری قسمت میںلکھا ہی نہیں۔ ” لکھ کر ہمارا نام زمیں پر مٹا دیا۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا“ ۔ یہ ڈریکولا تو ہمیں خاک میں ملانے کو تیار بیٹھاہے ۔صبح سویرے اخبار اٹھا کر دیکھو تو کوئی نہ کوئی برائے فروخت چیز اتنی گراں قدر ہو جاتی ہے کہ اس کو صرف خیال و خواب میں خریدا جا سکتا ہے ۔پٹرول کے نرخ بڑھ گئے تو حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔پٹرول کے مالکان اپنی ضد پر قائم رہے تو حکومت نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور پٹرول جو ارزاں ہو کر نایاب تھا جب گراں ہو اتو مہیا ہوا ۔ اب پمپ پر کوئی لائن نہیں پٹرول سامنے ہے ۔ قیمت دو اور خریدو مگر قیمت کہاں سے آئے اس کا سوچنا حکومت کا کام نہیں اور نہ اس کے بس کا کام ہے یہ تو عوام کے سوچنے اور سمجھنے کی چیز ہے جنھوںنے عام الیکشن میں خوداپنے پا¶ں پر کلہاڑی ماری ہے اور اب اپنا سیاپا خود کر رہے ہیں ۔

بجلی کو مہنگا کر دیا گیا اس کاعلاج تو عوام کے پاس یہی ہے عوام بجلی کے بل نہ دے ٹماٹروں کے ارزاں کرنے کو ان کے ہاتھ یہ ترکیب آئی ہے کہ عوام ٹماٹر نہ خریدے۔ چینی کے لئے بھی تو یہی ڈاکٹری نسخہ ہے کہ عوام چینی نہ خریدے۔ تو باواجی سوال اٹھتا ہے کہ پھر کون کون سی چیز نہیں خریدیں ۔ ہر چیز بکتی ہے یہاں تو پھر کیوں نہ خریدیں ۔ ہمارے عوام ہی میں کالی بھیڑیں ایسی ہیں جو عوام کے درمیان ایکا ہونے نہیں دیتیں۔سو ایسے میں کہ اتحاد و اتفاق کا فقدان ہو عوام کے دماغ کی کاریگری کیسے نپٹے گی۔ٹماٹر خریدنے والے خریدیں گے اور چینی خرید فرمانے والے چینی کو خواہ چین کے ملک سے کیوں نہ درآمد کی گئی ہو خریدیں گے۔بجلی کا استعمال کرنے والے لازمی طور پر بجلی کابل جمع کروائیں گے وگرنہ گزارہ کہاں ہوگا۔ نازک طبیعت اور ضرورتوں والے بجلی کے کٹنے سے ڈرتے ہیں۔کون اتنے خلجان پالے ۔مگر مسئلہ ہے تو غریب کا ہے وہ کہاں جائے وہ تو قابلِ فروخت اور برائے فروخت کے لیبل اور بینر اور جھنڈوں کو دیکھ کر آنکھوں سے ٹپ ٹپ دو آنسو بہائے گا اور جاکر گھر میں بیٹھ جائے گا۔اسے درو دیوار آواز دیں گے ” جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا۔ کہیں سن نہ لے زمانہ اے دل خموش ہو جا“۔ مگرنیند بھی کہاں آئے گی۔کیونکہ نیند بھی تو بھرے پیٹ پہ آتی ہے ۔ جہاں کہیں اگر برائے فروخت کے بینر نہیں لگے ہوئے ان دکانوں پر چیزیں بک ہی رہی ہیں ۔پھر جہاں اگر برائے فروخت کے لیبل نہیں لگے وہ مال و متاع بھی قابلِ فروخت ہے ۔ بلکہ وہ گانا یاد آ رہا ہے کہ ” ہر چیز بکتی ہے یہاں ۔ بولو جی تم کیا کیا خریدو گے“۔لیکن آج کل تو معاملہ جدا ہے ۔

 ” مال ہے نایاب اور گاہک ہیں اکثر بے خبر ۔ شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ“۔ حالی ہی کا شعر ہے کہ ” قیس ہو کوہکن ہو یا حالی۔ عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں“ مطلب یہ ہوا او رمختصر کہ مال نایاب ہو یا دستیاب ہو اور گاہک بے خبر ہوں یا خبردار ہوں ۔چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ پھر حکومت کو کانوں کان خبر بھی نہیں حکومت کے اندر ایک نہیں بہت سی حکومتیں قائم ہیں‘کیوں نہ ہر آدمی کے اندر خود کا ایک نگہبان ہو جو اس کے ضمیر کی رکھوالی کو متعین کر دیا گیا ہو یہاں نئے ڈیجیٹل زمانے کے مطابق ہر آدمی کے دل کے اندر جیسے پیس میکر رکھا جا سکتاہے ایک چپ سی لگی ہو اور وہ سم بتلائے کہ یہ آدمی اس وقت کہا ںہے اور کیا کر رہاہے ۔مگر ایسا ہو نا فی الحال تو ممکن نہیں۔ مگر کیا عجب کہ آنے والے زمانوں میں بلکہ جلد ہی بڑی طاقتیں جو بیالوجی کی جنگیں لڑ رہی ہیں ایسا کارنامہ کر دکھائیں اور ہر آدمی پر کڑی نظر رکھنے میں ان کو آسانی ہو ۔اس میں نہ سرحد کی کوئی قید ہو اور پاسپورٹ کا کوئی جھنجھٹ ہو ۔خفیہ کیمرے اگر نہیں لگ سکتے تو آسمان پر چاند جو سب کو دیکھ رہا ہے سورج میں جو نگاہِ تیز ہے وہ تو ہر بندے کو اپنی روشنی سے تاک رہاہے کہ کون کیا کر رہاہے ۔خود انسان کے ہاتھ پا¶ں اس کے خلاف گواہی دینے کو ہر لمحہ تیار بیٹھے ہیں۔ مگر کیا اچھا ہو کہ کسی پولیس والے کی کوئی ضرورت نہ پڑے اور آدمی خود اپنا محاسب ہو خود نگران ہو خود نگر ہو خود گیر ہو ۔