عیددبے پاﺅں گذرجائے گی

 وباءکے ان دنو ں سب کچھ ملیا میٹ ہو چکا ہے‘ جو پہلے تھا اور ہوا کرتا تھا اب نہیں ‘مگر آئندہ جب وباءانشاءاللہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی تو جو پہلے تھا واپس آ جائے گا‘ کیونکہ ہر انجام کسی آغاز ہی کے پیٹ سے جنم لیتا ہے‘ جو چیز شروع ہوتی ہے اس نے ختم بھی ہونا ہوتا ہے ‘کوئی ڈرامہ کوئی فلم کوئی سفر حتیٰ کہ دنیا آخر اپنے اختتام کو پہنچے گی‘دنیا کے خاتمہ کو ذہن میں لائیں تو اس نامراد وبا ءکی تاریخ نہ سہی مگر اس کے انجام کی فال خود بخود نکل آتی ہے ‘اس وائرس کے خود ملیا میٹ ہونے کی امید دل میں مضبوط ہونی چاہئے۔ وہ شعر یاد آ رہاہے ” خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک ‘ گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔امید کی کرنیں اپنے دامنِ دل میں چننا ہیں‘لڑائی میں جنگجوکو اس وقت شکست ہو جاتی ہے جب وہ حوصلہ ہار دیتا ہے‘ پشاور کی معروف ادبی دیو قامت شخصیت رضاہمدانی کا شعر ہے جو 26برس پیشتر جولائی کی 9تاریخ کو انتقال کر گئے تھے” شکست سے تو مرا شوق اور چمکے گا‘ کہ دا ہارا ہے پر حوصلہ تو ہارا نہیں“۔اس جولائی میں 7تاریخ کوخاطر غزنوی جیسی پشاور کی گرانڈیل ادبی شخصیت کی تاریخِ وفات بھی آتی ہے۔

 جو12 برس قبل انتقال کر گئے تھے‘مگر اس منحوس وائرس کی وجہ سے جہاں عوامی اجتماع نہیں ہو رہے وہاں شاعروں ادیبوں کے اکٹھ بھی غائب غلان ہیں‘ ورنہ اس ماہ کہیں نہ کہیں ان جیسے ناموران ادب کی برسی منائی جاتی ہے ‘یہ عارضی بندش کے دن ہیں ختم ہو جائیں گے ‘موت تو ویسے بھی معین ہے‘کون آگے کون پیچھے ‘ صرف کورونا ہی کی وجہ سے تو لوگ نہیں مر رہے‘دنیا میںروزانہ لاکھوں لوگ مرتے ہیں ‘ ہمارے وطن میں صرف نمونیہ کے کارن سال میں 80ہزار شہری جان سے جاتے ہیں ‘اس کے علاوہ اور بیماریاں الگ ہیں‘ حیران کن بات ہے کہ ایڈز میں مبتلا لوگ ہمارے ارضِ وطن میں دنیا کے اور ممالک کے سامنے زیادہ ہیں‘سو امید پر دنیا قائم ہے ‘ بقولِ فیض ”دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے ‘ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے“ ۔ یہ شام ختم جائے گی اور صبح کا سورج نمودارہوگا‘ایڈوکیٹ جمیل قمر بھی گئے‘ ایک ماہ کورونا کے بستر پر رہے‘اس دوران طبیعت سنبھل بھی گئی اور بسترپر ہاتھ ہلا کراپنی تصویربھی جاری کی ‘مگرپھر سے طبیعت میں خلل پیدا ہوا تو جان ہی سے چلے گئے ‘کیا خوش باش طبیعت کے مالک تھے‘ گلبہار میں ہمارے مہربان اسد نوید بھی کورونا میں دنیا چھوڑ گئے‘خود اپنے ہاتھوں سے بسترِ مرگ پر سالگرہ کا کیک کاٹا او رپوری دنیا میں ان کی شہرت ہوئی ‘اب عید جو تین ہفتوں کے بعد آنے والی ہے اس پر وہ پیارے بہت یاد آئیں گے جو کورونا میں مفت میں گئے‘قانون کے پروفیسر جنید نثار جنھوں نے اچانک یوں منہ موڑا جیسے کوئی موڑ کاٹ کے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ‘پیارے انور خان آف نوتھیہ بھی انھیں دنوں اللہ کوپیارے ہوئے‘ اگرچہ کہ کوروناکے کارن جہانِ فانی سے نہیں گئے مگران کا مرنا نہیں بھولوں گا‘پروفیسر ہمایون ہمدرد بھی انھیں دنوں فالج کی وجہ سے ہم میں نہیں رہے‘آج کل زندگی ہے تو بے کیف ہے ۔

 پھیکے مشروب کی مانند دورسے اچھی ‘ قریب جا تو یہ جام تلخی اور زہر سے بھرا ہے ‘ اس کے علاوہ اور بہت سے لوگ ہیں جو کورونا کے مریض ہو کر ہم سے جدا ہوگئے۔ ” یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لئے‘جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لئے“ ( فارغ بخاری)‘ا ب عید بھی آئے گی تو کیا آئے گی‘نہ کسی سے ملنا ملانا اور نہ وہ لوگ جو پچھلی عید پر ساتھ تھے ‘ بہت مضبوط اور سخت شرائط طے کر لی گئی ہیں جن پر عمل کر کے عید منانا ہے ‘گویا ”مجھ کو تیری نہ تجھے میری خبر آئے گی‘عید اب کے بھی دبے پں گذر جائے گی“۔مگر ہمارے عوام میں عام لوگوں کا ذکر ہی کیا پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے ہیںجو کورونا میں خوب آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں‘ اندازہ یہ ہے کہ وہ اہتمام سے عید کا مزہ لیں گے‘ اور باربی کیو کو بار بار منعقد کر کے عید کی سلامی وصول بھی کریں گے اور ان گرمیوں کے موسم میں حجرہ مزید گرم کریںگے‘کیونکہ جب شادیوں میں ان دنوں گرمی میں سرگرمی ہے تو پھر عید تو ان کے لئے غیر اعلانیہ تحفہ ہوگی‘مگر احتیاط اگر دامنِ دل کو تھامے رکھے تو کیا اچھا ہو‘کیونکہ دھوم دھڑکے کی لالچ میں اگر کوئی بھلا چنگا نئی بننے والی کورونا ہسپتال کو لے جایا جائے تو کتنا برا ہوگا‘جو نئے کورونا ہسپتالوں کی منظوری ہوئی ہے کاش وہاںکسی ایک کو بھی یہ اعزاز حاصل نہ ہو کہ وہ یہاں کوروناکاپہلا مریض تھا جو لایا گیا ‘ کیونکہ یہ بھی تو ایک ریکارڈ ہے جو چاہے نہ چاہے بنے گا سہی ‘مگر کوشش ہو کہ یہ اولین مریض مجھے نہیں ہونا چاہئے۔