مال مویشی نمائش اورہم

 دیکھتے ہیں کہ لوگ اب کیا کرتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ اب کے تو قربانی بھی مشترکہ کریں۔ ایک ایک آدمی الگ الگ طور پر قربانی کا جانور ذبح کر کے ماحول میں کورونا وائرس کو پھیلانے سے رک جائے۔ مگر کہاں پچھلی عید پر کیا ہوا تھا۔ ہزار منع کرنے کے باوجود اجتماعی عید ملن پارٹیاں ہوئیں۔ یوں کہ اس وطن میں وائرس کا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔جیسے یہ وبا ووہان شہر کی طرح وہاںسے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔مگر نایاب اور ناپید تو نہیں ہوئی بس آنکھوں سے اوجھل ہوئی ہے اور یہاں وہاں ہر جگہ پھر سے قدم جمانے کے لئے پرتول رہی ہے ۔ہمارے ہاں تو چھوٹی عید کو خوب رنگا رنگی دیکھنے میں آئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد کورونا کے مریضوں کی مردم شماری زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ سمارٹ لاک ڈا¶ن لگے اور شہر کو شہریوں سے اور شہریوں کو اس وائرس سے نجات دلانے کو پشاور میں کورونا کے دو ہسپتال منظر عام پر آگئے ہیں۔ اس حد تک کہ کسی بیماری کا اثر اور پھر وہ اتنا براکہ اس کی روک تھام کے لئے الگ سا ایک شفاخانہ بنا دیا جائے۔ یہ حیران کن ہے اور تشویش ناک بھی ۔اب تو مال مویشی کی منڈیاں بھی اپنے سائز میں بڑی نہیں ہوں گی اور لگیں گی تو آبادی سے دور تاکہ وہ لوگ جن کا مال مویشی کی خرید وفروخت سے کام نہیں وہ نہ آئیں۔ مگر کھیل تماشا تو ہماری قوم کی فطرت میں شامل ہے۔ اس حد تک کہ کوئی قتل ہو رہا ہوتا ہے اورابھی گولی نہیں چلی ہوتی ۔ اس وقت ہمارے مہربان وہاں کھڑے ہو کر اس سے پہلے کہ ظالم کاہاتھ پکڑ لیں اپنا سمارٹ موبائل نکال کر مووی کلپ بنانا شروع کر دیں گے۔سو شہر سے باہر جہاں کہیں بھی منڈیاں لگائی جائیں یہ لوگ ایک بندے کے ساتھ جو گائے بیل خریدنے جائے گا پانچ پانچ آدمیوں کی صورت میںجائیں گے۔بچے بھی ساتھ ہوں گے کیونکہ یہ بھی تو بچوں کے لئے تفریح کا سامان سمجھا گیا ہے ۔یہ ماسک پہن کر شہر میں نہیںگھومتے اور کیسے مال منڈی میں مویشی کی خرید کے لئے ماسک پہنیں گے۔

 بنک سے باہر ایک آدمی جو بغیر ماسک کے آیا اور اسے گارڈ نے روکاتو اس نے گارڈ کے سامنے سڑک پر کھڑے ایک آدمی کو درخواست کر کے اس کا ماسک لیا او رمزے سے پہن کر گارڈ کے پاس تھرمو گن پر اپنا بخار چیک کرواکے اندر چلا گیا۔ کیونکہ اگروہ ماسک کی ریڑھی والے کو ڈھونڈے گا تو پندرہ منٹ کے بعد بینک بند ہو جائے گا۔ حالانکہ بینک بند ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ اور باقی ہوگا مگر یہاںتو بینکوں کے دروازے وقت سے تیس منٹ پہلے بند کر دیئے جاتے ہیں۔پٹرول پمپ پر بھی جس کے پاس ہیلمٹ نہ ہو وہ دوسرے بائیک سوار سے وہیں ہیلمٹ لے کر پہنتا ہے اور پٹرول ڈالواتا ہے ۔ پمپ کے سیل مین سب دیکھتے ہیں مگر چونکہ ہیلمٹ پہننے کی بنیادی شرط پوری ہو جاتی ہے سو وہ بھی دیکھ کر آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب جانتے ہیں۔خیر قلم ہے جس طرف کو پھسل جائے سرک جائے بات یہ نہیں کرنا تھی مگر کیا کریں عادت سے مجبور ہیں‘مویشیوں کی منڈیاں بھی سمارٹ ہو جائیں گی اور شہر سے باہر چلی جائیں گی مگر وہ جانور جو خریدے جائیں گے وہ کہاں جائیں گے ۔وہ تو شہر میں آئیں گے سو اب گلیوں اور سڑکوں پر ایک بیل کو چار چار آدمی تھامے چھن چھنا چھن لے جاتے ہیں۔

قصہ خوانی ہے گھنٹہ گھر ہر جگہ یہ عالم شوق کا دیکھا نہیں جاتا ۔ پھر اس تماشے او رسیر کو دیکھنے کی غرض سے وہ آنکھیں بھی سربازار گول مٹول گھومتی ہوئی آ جاتی ہیں جن کا ان جانوروں سے کوئی سروکار نہیں‘جہاں بڑی عید کی شرائط حکومت نے طے کر دی ہیں وہاں یہ بھی کہنا تھا کہ عید سے پہلے سات دنوں میں جانور خریدے جائیں۔ مگر یہ شرط شاید ان کو یاد نہ رہی۔کیونکہ وبا کو سراسر نظر انداز کر کے شہرپشاور کے باسی نئے تازہ مال کو گلیوں کوچوں میں رسیوں کے بل کھینچے پھرتے ہیں تاکہ ان کے مال کی نمود و نمائش ہو خواہ روپیہ ہے کہ جانورہے ۔ اس میں بھی ایک نشہ ہے کہ جب جیب میں سکے بجتے ہیں تو ان دنوںگائے بیل کے پا¶ں میں پڑی ہوئیں پازیب بھی بجنے لگتی ہے ۔