انٹرنیٹ کازمانہ

سوچ رہا ہوںکہ یو ٹیوب پر اپنا چینل بھی لانچ کروںہم کہاں کے دانا ہیں اور کس ہنر میں یکتا ہیں ۔اگر کوئی سبسکرائبر نہ ملے تو کیا ہوا او رکوئی لائک نہ ہو تو کیا پریشانی مگر اتنا اندازہ ہے کہ اپنے چینل پر ہم اپنے دل کی بھڑاس تو نکال ہی لیں گے ۔انٹر نیٹ نہ ہو تو لگتا ہے کہ کچھ گم ہو چکا ہے پھر یو ںمحسوس ہوتا ہے مجھے کچھ ہو رہاہے کیونکہ فیس بک پر ہزاروں دوستوں کی پوسٹیں دیکھنا ہوتی ہیں۔نیٹ تو ایک سمندر ہے جس میں ایک چیز اتفاق سے اگر آپ کے ہاتھ لگ گئی تو اس کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کےلئے آپ کا موبائل آپ کی ذاتی ڈائری کا کام دے گا۔پھر اس کے علاوہ واٹس ایپ پر وائس میسج نے تو جیسے دنیا کو فتح کر لیا ہے ۔ا س ایپ میں آواز کی کوالٹی شاندار ہوتی ہے۔ آرام سے کہو اور دوسرے تک پہنچا دو نہ تو سگنل کا مسئلہ کہ آوازدرست نہ ہو ۔ جو منہ سے بول دیںاس میں کوئی خلل انداز نہ ہو پھر اس کو بطورِ ثبوت ہر وقت کسی کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے اورکسی کو اس کی کاپی بھجوائی جا سکتی ہے ۔ ہر کال کی ریکارڈنگ ہو سکتی ہے دو طرفہ آوازوں کو دنیا کے اس سرے تک آن فان میں پہنچایا جا سکتا ہے ۔وزیر وزراءاور مشیر وں کی گفتگو ہو کہ عام آدمی کی بول چال ہو جو کسی شہری سے ہو سب کی ریکارڈنگ دستیاب ہو سکتی ہے۔سائنس نے موبائل کی دنیا میں بطورِ خاص وہ کامیابیاں سمیٹی ہیں کہ آدمی آدمی سے ڈرنے لگا ہے کہ کہیں میری خفیہ بات کسی کے پاس موجود تو نہیں۔ گویا ہوا¶ں میں کیمرے لگے ہیں اور دیواروں میں مائیک ہیں جو بندے کی آواز کو ریکارڈ کر لیں گے۔بلکہ اب تو کسی کے پاس موبائل نہ ہو ایسا ہو نہیں سکتا ۔

اب تو ہر آدمی نے موبائل خرید رکھا ہے ۔خواہ وہ اس پر سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا۔خواہ اس کی تعلیم ہے کہ نہیں مگر اس کو موبائل چلانا آتا ہوگا۔اس کے ہر ایپ سے ہر عیب سے واقف ہوگا۔ موبائل ذراسا تو ہے مگر پانی کے اس قطرے میں ایک دنیا بند ہے جس میںحیرانی اور گم ہوجانے کے سوا اور کچھ نہیں ۔صرف موبائل بھی کافی ہے مگر اس میں انٹر نیٹ کی سہولت موجودہو تو واہ بھلا۔پھر تو کسی چیز کی کسر باقی نہیں رہے گی۔ یو ٹیوب پر ذاتی چینل کھلے ہوئے ہیں۔ پروفیسر ملک ارشد حسین نے اپنا ذاتی چینل کھول رکھا ہے ۔ٹائم آف پشاو رکے نام سے انھوں نے ابھی تک رحمان بابا کے فن و شخصیت پر ایک ڈاکومنٹری ٹائپ کی فلم بنا رکھی ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے چائنا وا ل ان پشاور کے نام سے بھی ایک مووی اپ لوڈ کی ہے ۔ جس میں آدمی کو بہت معلومات ملتی ہیں۔ پشاور کے قومی اداکار نجیب اللہ انجم پر پروگرام ریکارڈ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ پشاور کے پروفیسر تنویر احمد نے بھی اپنے یو ٹیوب کے چینل پر موٹی ویشن لیکچراپ لوڈ کر رکھے ہیں۔ جس سے دیکھنے والوں کو بہت رہنمائی ملتی ہے ۔خاص طور معلومات کے شوقین حضرات اورطالب علموں کو اس قسم کے یو ٹیوب چینل بہت فائدہ دیتے ہیں۔

مگر افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ غیروں کا دیا ہوا ہے ہمارا یا ہمارے اپنوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ۔ ہم تو ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اور خرید کرانھیںکو پیسے پہنچاتے ہیں ۔جس سے انھیں مالی فائدہ پہنچتا ہے مگر ہم تو روز بروز غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والوں کے پاس جا رہے ہیں ۔ غربت کا گراف تیزی سے اوپر جا رہاہے اور ہم خود غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں۔اگر ہم میں بھی سائنسدانوں کی آمد شروع ہو جائے تو ہمارا بھی کچھ اعتبار دوسری اقوام پر بنے گا۔ہم بھی کچھ کرسکنے کے قابل ہوں گے ہمارا اپنا کیا ہے بس میز قلم اور کرسی پھر ان کو استعمال کر کے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ وہی پرانے ہیں اور ناقابل عمل ہیں‘باقی تو ہمارے ہاں سائنسدانوں کی پیدائش کا عمل اور ان کی افزائش رک چکی ہے ہاں اگر کچھ ہے تو سیاستدان ہیں جو ہمارے معاشرے میں بے دریغ پیدا ہو رہے ہیں۔ایک سے ایک بڑھ کر لیڈر ایک سے ایک بڑھ کر سیاستدان ہے۔ سیاست اتنی آسان ہو چکی ہے کہ اب تو بچوں کواور جو جوان ہو رہے ہیں طالب علموں کو اس میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر سیاستدان بنیں گے۔