یہ کہنا کہ بدترین جمہوریت بہترین ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے‘ غلط ثابت ہوتا ہے جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے اس ضمن میں صرف کراچی میگا شہر کی ہی مثال لی جا سکتی ہے جہاں ووٹ حاصل کرنے یعنی ووٹ کے حصول کیلئے عوام کو اپنے پارٹی منشور کی افادیت سے قائل کرنے کی بجائے تشدد سے کام لیا جاتارہا ہے سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر لے آئی ہے ان تین رپورٹوں میں کراچی میں نافذ سیاست اورجرائم کے قریبی رشتے پر جو روشنی ڈالی گئی وہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے البتہ سرکاری طورپر پہلی بار ایساہوا ہے رپورٹ شائع ہونے سے پہلے ہی کئی صحافیوں نے رپورٹ کے اقتباسات عوام کی معلومات کیلئے ان تک پہنچا دیئے تھے جے آئی ٹی رپورٹ نے تین ایسے واقعات کی تفصیل شائع کی ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی اثر رسوخ حاصل کرنے کیلئے کس حد تک تشدد کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ رپورٹ میں کراچی کے علاقہ لیاری کے گرفتار عزیر بلوچ اور نثار سورائی کے جرائم اور بلدیہ ٹاو¿ن فیکٹری کی آگ کی تفصیل دی گئی ہے11ستمبر2012 کو بلدیہ ٹاو¿ن کی گارمنٹ فیکٹری علی انٹرپرائز میں مبینہ طور پر ایک سیاسی پارٹی کے کارندوں کی طرف سے آگ لگائی گئی تھی جس میں 260 مزدور جاں بحق جبکہ49 شدید جھلس گئے تھے 27صفحات پر مشتمل تفتیش نے عیاں کیا کہ ایک سیاسی پارٹی کے حملہ آوروں نے فیکٹری کو آگ اس لئے لگائی کہ مالک فیکٹری نے پارٹی کی طرف سے بیس کروڑ روپے بھتہ دینے کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا ۔
آگ میں اتنی بڑی تعداد میں مزدوروں کی ہلاکت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ فیکٹری مالکان نے قانون کے مطابق نافذ احتیاطی تدابیر اپنائی نہیں تھیں ‘فیکٹری کا نقشہ اورتعمیر بلڈنگ قواعد و ضوابط کے برخلاف تھی یہاں تک کہ حادثہ کی صورت میں ایمرجنسی راستے کا بھی انتظام موجود نہیں تھا جس کے ذریعے کئی قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ بلدیہ ٹاو¿ن آگ کو آٹھ برس ہوگئے ہیں لیکن کسی سرکاری محکمہ نے وہاں تعمیر دیگر فیکٹریوں کے حفاظتی اقدام کا جائزہ نہیں لیا ہے بلدیہ ٹاو¿ن آگ کے مجرموں کے خلاف ایکشن لینے میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مجرموں کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا جو دوسرے نام سے آج وفاقی حکومت کی اتحادی بن چکی ہے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت قائم رہنے کیلئے ایم کیو ایم پی کے ووٹوں کی اشد ضرورت ہے پارٹی یا انکے اہم رہنماﺅں کے خلاف ایکشن لینے سے وفاقی حکومت گر سکتی ہے لگتا ہے۔
بلدیہ ٹاﺅن اگ سے متاثرہ مزدور خاندانوں کو حقیقی انصاف سے محروم رکھا جائے گا ‘ جے آئی ٹی رپورٹ کے شائع ہونے سے کراچی کی سیاسی فضا میں جو دھونس دھاندلی چلتی ہے وہ تو منظر عام پرآگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ باقی ماندہ ملک میں بھی ووٹ کے حصول کیلئے سیاسی پارٹیاں نامناسب ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں اسیلئے تو مخلص‘ عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار امیدوار اسمبلیوں میں آنے سے محروم رہ جاتے ہیں دیہاتوں میں وڈیرے‘ بڑے زمیندار‘ قبائلی سردار اپنا اپنا رسوخ استعمال کرکے ووٹ جیت جاتے ہیں تو دوسری جانب برادری سسٹم کی خاصر ووٹرز کو اپنی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جاتاہے بڑے شہروں میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو ڈرانے دھمکانے کیلئے رکھا جاتا ہے ، اس طرح اگر کوئی سیاستدان مجرموں کے ذریعے ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں آجائے تو کیا اس کیلئے یہ ممکن ہوگا کہ کسی ایسے گروپ کے خلاف قانونی کاروائی کرے؟ ان حالات میں لاءاینڈ آرڈر جس سمت میں جائے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔