سچی اورپیاری بات

 ہمارے ہاں بابے بہت ہیں کچھ تو سچے اور اچھے اصلی اور کھرے ۔پھر کچھ مصنوعی اور بناوٹی انداز کے بابے بھی ہیں اب واصف علی واصف کو لیں ان کی کتابیں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اشفاق احمد کی طرح کی دانشور شخصیت ہیں ۔ان کی لکھی ہوئی باتیں بار بار پڑھنے کے قابل ہیں۔مگر جو بابے ہوتے نہیں اور خود سے بابے بن جاتے ہیں ان کا یہ کام ہوتا ہے کہ ہر اچھے برے کام پر اعتراض ہی کرتے ہیں اس میں ان کو مزا آتا ہے ۔ان کے منہ سے آپ کسی انسان کسی سیاستدان کی کبھی تعریف نہیں سنیں گے ان کی ماتھے پر ہمہ وقت کی تیوری بھی دیکھیں گے ماتھا گھوما ہواہوتا ہے ۔ان سے تعریف ہوتی ہی نہیں ہے ۔ہاں اگر اعتراض کا کہوتو اعتراض کرنے میں بہت ماہر ہوں گے ۔ اس قسم کی مخلوق ہمارے ہاں بہت وافر پائی جاتی ہے باہر کے مہذب ملکوں میں لوگ کھلے دل کے انسان ہیں ۔ تعریف کریں گے اور اعتراض بھی کریں گے مگر ہمارے ہاںٹی وی لگا کر ٹاک شو دیکھیں نیوز چینل پر اس قسم کی شخصیات آتی ہیں جن کاکام ہی اعتراض کرنا ہوتا ہے۔جب تک وہ اعتراض نہیں کریں گے ان کادل ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ ایسا کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ مخالف پارٹی میں ہوکر حکومتی پارٹی کی تعریف میں دو ایک بول بولیں۔خواہ اپوزیشن کوئی اچھا کام کرے تو حکومت کے کارندوں کی زبان جلتی ہے کہ وہ ان کے حق میں اپنی آواز شامل کریں ۔ بس اعتراض برائے اعتراض اور مخالفت برائے مخالفت کا زمانہ ہے جس کے وائرس سے ہمارے اسمبلی ہال اور سینٹ ہالوں کے درو دیوار چکنے ہو چکے ہیں اگر وقت نہ ہو مگر ٹائم نکال کر کسی موقع پر تنہائی میں ہمیں اپنے گریبان میں دیکھ لینا چاہئے۔

 کیونکہ ہمارے ہاں یہ چلن عام ہو چکا ہے کہ بعض حضرات نے اعتراض کرنے ہی کو زندگی سمجھ لیا ہے ۔باوا جی اگر سامنے والا اعتراض کا موقع دے رہا ہے تو ٹھیک ہے لگے رہو اعتراض کرو ۔نازیبا سیاست کے عروج کا زمانہ ہے اگر کسی کو کسی کے کسی کارنامے پر دل میں چھبن ہے تو ضرورسامنے لائے ۔ لیکن انصاف تو یہ ہے اور حق بھی کہ اگر سامنے والا کوئی درست فریضہ سر انجام دیتا ہے تو اس کی تعریف بھی کرنا چاہئے۔یہ تو نہ ہوگا کہ اعتراض کے وقت معترض گلے کی رگیں نمایاں کر کے جہاں کہیں اگر کوئی فورم ہو خواہ سیاسی یا دوستانہ یا عام معاشرتی صرف اعتراض ہی کرے ۔ لیکن جب مدعی کوئی نیک کام کرے یا کوئی اچھا قدم اٹھائے تو پھر بھی اسے طنز کے تیروں سے خونم خون کر دیں۔بقولِ شاعر” فراز سنگِ ملامت سے زخم زخم سہی ۔ ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے“۔یہ نہ ہو کہ صرف اور صرف اعتراض ہے کی صدائیں بلند ہوں اور کمانوں میں جوڑنے کے لئے تیر تیار ہوں۔” یارو اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فراز۔اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تو تھا“۔یا وہ کیفیت نہ ہو کہ ” دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔ اپنے ہی دوستوںسے ملاقات ہو گئی“۔اپنے آپ کو جو عقلِ کل سمجھتا ہے دنیا میں وہی آدمی بہت غلطیاں کر رہاہوتا ہے ۔

آدمی کی آدمیت اور انسان کی انسانیت اسی میں ہے کہ وہ کہے مجھے تو کچھ نہیں آتا۔سامنے والا جو بھی ہے مجھ سے بہتر بھی ہے اور سمجھ بھی رکھتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تو یہ دستور نہیں ۔ ہر آدمی قل قل ِ مینا بنا ہوا ہے ۔ خاکسار کی خاکساری بہت اچھی چیز ہے۔حالی نے کہا تھا ” ہم نے ہر ادنی ٰ کواعلیٰ کر دیا ۔ خاکساری اپنی کام آئی بہت“۔عاجز ی اچھی چیز ہے ۔ اس سے تو مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فرمائے کہ میں بہت سمجھتا ہو ں میں سب کچھ ہوں اور میں ہی سب سمجھتا ہوں تواس پر سوائے افسوس والے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس دنیا میں سب انسان بستے ہیں پھر غلطی تو آدمی کی فطرت میں چھپی ہوئی ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوتی یا میں غلطی نہیں کرسکتا۔ غلطی تسلیم کرنےمیں آدمی کا بڑاپن ہے چھوٹے وہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو چھوٹا نہیں سمجھتے اور بڑے وہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کوبڑا نہیں سمجھتے۔یہ اشفاق احمد نے زمانوں پہلے اپنے ایک ریڈیو پروگرام میں کہا تھا ۔ مجھے ان کی بات اب تلک یاد ہے ۔ یہ انھوں نے اپنے پروگرام ” تلقین شاہ “ میں کہا تھا ۔۔