بارش آتی ہے تو ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی آتی ہے‘ گرمی میں مینہ کا ہونا ہر چند خوشی کی بات سہی مگر بارش کے بھی اپنے مسائل ہیں جن سے ہم لوگ دوچار رہتے ہیں بلکہ تین پانچ رہتے ہیں ‘نالے ابل آتے ہیں ‘ بیچ چوراہے تالاب سے بن جاتے ہیں ‘ گٹر اور نالے الگ اور سڑکوں میں گڑھوں کا بھرجانا جدا ہے ‘جب بارش آتی ہے تو پانی بھی آتا ہے اورپانی کھڑا ہو جاتا ہے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب زمین پربسنے والوں پرگرما کی گرم چادر تان لیتا ہے ‘بارش چلی بھی جاتی ہے مگر لوڈ شیڈنگ منہ چڑاتی ہے یہ کہیں نہیں جاتی ‘ گھنٹوں رہتی ہے ‘دعاں سے یہ بلا ٹلے تو ٹلے قسمت سے اگر اس کی شدت میں کمی واقع ہو تو ہو وگرنہ تو دن بھر بجلی کو غائب کر دیا جاتا ہے ‘پورے ملک میں یہی حال ہے ‘بجلی کی خرابی کے نام پر بھی ایک پیکیج کے طور پربارش کے دوران میں آٹھ آٹھ گھنٹوں کا عذاب الگ جبری طور پر وصول کرنا پڑتا ہے ‘بارش سو بار آئے سر آنکھوں پر آئے ‘پانی تو آئے گا سو وہ بھی آئے ‘ہمارے ہاں تو کافی دنوں پہلے بادلوں کی گڑگڑاہٹ سنی گئی تھی اور پھر یہاں کے بادل جا کر دوسرے شہروں میں برسے لیکن ہمارے ہاں اس معاملے میں آسمان سے ابھی تک گرما کی شدت میں کمی کا امکان نظر نہیں آتا ‘بارش کاش ہو مگر امن وامان والی اور رحمت والی نہ کہ زحمت والی ہو ‘ویسے رحمت اور زحمت میں ایک نقطے ہی کا تو فرق ہے۔
جہاں سڑکیں درست ہیں وہاں تو رحمت ہے اور جہاں معاملہ الٹ ہے وہاں زحمت ہی زحمت۔ ” وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں “ امجد اسلام امجد کے اس مصرع والی صورت حال ہوتی ہے ‘یہاں کے بادل وہاں چلے جاتے ہیں ‘مینہ برساتے ہیں خود بھی نہاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نہلا تے ہیں اور بہلاتے ہیں بلکہ ہم جیسوں کو تو بہلاتے پھسلاتے ہیں کہ” وقت اچھا بھی آئے گا ناصر۔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی “۔اسلام آباد میں بارش ہو تو ہمارا جی ویسے ہی انجانے میں خوش ہو جاتا ہے کہ دو ایک ٹھنڈی ہوا کے ریلے ہم تک بھی پہنچ جاتے ہیں ‘یہاں کی حبس میں کچھ نہ کچھ کمی ضرورہوتی ہے مگر پشاور میں بارش تو ہو‘سننے میں آ رہاہے کہ مون سون کی بارشیں ہو ئیں کہ ہوئیں‘ امید کہ عید کے دن اچھے گذر جائیں گے کیونکہ سرکاری طور پر ایڈوانس ہی میں عید پر عوامی رونق و محفل کو روک دیا گیا ہے مگر عوام قبول کرنے سے انکاری ہیں اور تاک میں ہیں کہ عید آئے اور یہ کھل کھیلیں کیونکہ بازاروں کا رش عید کے قریب ہونے کی علامات میں سے ایک ہے ‘لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تو زندگی دوبھر ہو چکی ہے‘عام حالات میں ان دنوں بھی بجلی کی آنکھ مچولی اور کھیل تماشا جاری ہے جہاں روم کولر نہیں وہ کیا کرتے ہوں گے جہاں اے سی نہیں انھیں کن مشکلات کا سامنا ہوگا‘ ہاتھ کا پنکھا جھلتے جھلتے ساری رات کانٹوں کے بستر پر جیسے گذار دیتے ہیں ‘جہاں رات کو سکون کی نیند دستیاب نہ ہو وہاں دن بھی تو سو گنا تکلیف سے گذرتا ہے کیونکہ نیند کاپورا ہونا ضروری ہے ‘راتوں کو اگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شب بیداری ہو تو دن کوکیا برا حال ہوتا ہے۔
پھر خدا لگتی بات ہے کہ اگر جہاں روم کولر ہیں اور اے سی ہیں وہ بھی کون سا تیر مار لیتے ہیں ‘ بجلی ہوگی تو یہ مشینی اشیاءچل پائیں گی ‘وگرنہ تو سب کے سب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے بلکہ جاگنے کو پاں بھی سمیٹ کر بیٹھ جائیںگے ‘صحن میں سو جائیں مگر آسمانی گولیوں کی نذر نہ ہونا پڑے ‘کمرے میں مکھی مچھروں کی یلغار ہے ‘دوسری طرف بیان بازیاں کہ ہمارے ہاں شارٹ فال نہیں ‘اگر شارٹ فال نہیں تو آپ کے ہاں فالٹ تو ہے‘اب ہر گھر تو یو پی ایس سے آراستہ نہیں کیونکہ اس پر بھی تو آخر خرچہ آتا ہے جہاں روٹی پانی کا مسئلہ ہو وہاں ان قسم کی عیش والی چیزوں کے بارے میں سوچنے پر بھی جیسے خرچ اٹھتا ہو ‘اس لئے تونچلے طبقے کے پاس اس سوچ کے لئے ٹائم ہونا چاہئے وہ بھی تونہیں‘کہتے تھے کہ بجلی آنے میں سات سال لگیں گے ‘ وہ بھی گذر گئے اوپر پانچ سال بھی گذار دیئے مگر نہ آئی بجلی نہ آئی ‘اب کہتے ہیں نیا ڈیم دس سال میں بنے گا مگر اب جو سرکاری ایوانوں سے بیان جاری ہوتا ہے کہ بجلی ہمارے ہاں اضافی ہے تو پھر لوگ کیوں محکمہ لوڈ شیڈنگ کو سامنے رکھ کر سیاپا کر تے ہیں پھر کہتے ہیں کہ لائن لاس کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹرانسفارمر پر چیک مشین لگائیں گے مگر کرنے والے تو ہاتھ کر جاتے ہیں اور نکالنے والے اپنا مطلب اور اپنا راستہ نکال ہی لیتے ہیں یوں کہو کہ آنکھوں سے سرمہ نکال کر لے جاتے ہیں ‘واپڈا کے خود کرتا دھرتاں کے نمائندے جب عوام کے نمائندوں سے مک مکا اور میل ملاپ کرتے ہیں تو بجلی کی چوری تب ہوتی ہے ‘عام آدمی توبجلی کے معاملات کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔