اگررنگ روڈ سے قصہ خوانی تک جانا ہو تو سمجھ نہیں آتا کہ کون سی راہ اپنائی جائے۔ بالفرض چلے جائیں اور کہیں نہ کہیں اس رش کے سمندر میںسے غوطے لگاتے ہاتھ پا¶ں مارتے وہاں پہنچ بھی جائیںوہاں سوچنا ہوگا کہ یہاں آ کر اپنے ساتھ جو ظلم کرنا تھا وہ تو کر لیا اب آگے کی کیا سوچ ہونا چاہئے مگر عین بازار کے بیچ کھڑے ہو کر گھنٹہ بھر سوچنے کے بعد بھی کوئی اور راہ سجھائی نہ دے تو سوچنا فضول ہے بس آستینیں کھینچ کر نکل کھڑے ہونا چاہئے اگر پہلا قدم نہیں اٹھائیں گے اور بازار میں ایک طرف کھڑے بھیڑ بھاڑ کا منظر دیکھتے جائیں گے تو عین ممکن ہے کہ پولیس مشکوک قرار دے کر دھر لے سو نکل جانا چاہئے ۔ کبھی تو پہنچ ہی جائیں گے۔ ہزار بہتر ہے کہ چل پڑیں آہستہ ہی سہی کیونکہ چلنے سے منزل جلد نہ سہی دیر سے مل تو جاتی ہے ۔ذہن میں کھلے ڈلے راستے کا انتخاب ان دنوں بیکار ثابت ہو گا۔ کیونکہ شہر بھر کے راستے بھاری بھرکم او ربوجھل ہوچکے ہیں ۔شام پڑتے ہیں وہ ہجوم نکل آتا ہے کہ کہیں گاڑیاں ہیں تو کہیں انسان پیدل جا رہے ہیں۔ شام چھ کے بعد ساڑھے سات تک پورے پشاور میں گھوم جائیں آپ کو کہیں بھی کوئی رستہ خالی نہیں ملے گا۔ مگر وہ شہری جو گھر کے بھیدی ہیں جو جان جوکھم میں ڈال کرانسانوں کے اس سمندر میں جہاں گاڑیاںدو تین اور چار پہیوں کی ہیں اپنا سا راستہ نکال لیتے ہیں۔ کہیں پتلی گلی سے نکل گئے تو کہیں فٹ پاتھ کا سہارا لیا اورجاتے گئے ۔ حتیٰ کہ گاڑیوں کی لگی ہوئی لمبی قطار کے عین شروع پر پہنچ جاتے ہیں مگر یہ کا م ہر گاڑی کا نہیںاس میں اگر مہارت حاصل ہے توموٹرسائیکل سواروں کو ہے کیونکہ اونٹ کو اگر ریت کا جہاز کہتے ہیں تو پشاور میں بائیک کو رش کے بیچوں بیچ اڑنے والا اونٹ کہیں گے۔پھر چار پہیوں کی بات بھی تو نہیں ہے ۔یہاں تو بائیس ٹائروں والے ٹرالر بھی بازاروں میں پابندی کے باجود گھومتے پھرتے ہیںحالانکہ ان کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے ۔
ان کا اپنا وقت مقرر ہے مگر یہ ہیں کہ اپنے ٹرکوں کو امریکا کے میزائل سمجھ کر ہوا کے کاندھے پر سوار تیر کی سی تیزی سے جاتے ہیں ۔ان کو کوئی چیز ڈرا نہیں سکتی پھر ذرا ٹریکٹر والوں پر توجہ دیں چھوٹے اور اونچے نیچے راستوں پر بھگاتے ہوئے جاتے ہیں جیسے کسی انگریزی فلم کی شوٹنگ جاری ہے اور ٹریکٹر کا ڈرائیور اس میں ہیرو کا کردار ادا کر رہا ہے ۔یا تو دشمن یا پولیس اس کے پیچھے ہے ایک ہی بات ہے رش کی زد میں سب کچھ آیا ہوا ہے ۔ شہر کا کوئی کونہ بھیڑ سے خالی نہیں گاڑیوں سے عاری نہیں گاڑیوں والے تو آرام سے آئیں گے مگر ہم جیسے جو دو پہیوں پر سوار ہوتے ہیں کڑھ کر جل جل کر لڑ لڑ کر گھر پہنچتے ہیں کیونکہ سڑک پر رش میں ہر گاڑی والے کا ایک اپنا کردا رہے جو منفی ہے ہر ایک کی کوشش ہے کہ جلدی اس رش سے بچ بچا کر نکل جائے۔ جلدی میں وہ ایک غلطی کے اوپر دوسری غلطی کر تا ہے لڑتا ہے جاتا رہتا ہے پھر ان میں وہ جوان نسل کے کارندے بھی ہیں جو موٹر بائیک کو اگلا ٹائر اٹھا کر ساتھ بغل میں سے ہو کر نکل جاتے ہیں گھنٹہ گھر ہو یا چوک یادگار کہیں سے شارٹ کٹ لگانا ممکن نہیں بس رش کی نذر ہونا ہے لہٰذا گھر سے اگر ضروری نکلنا ہو کہ سات بجے قصہ خوانی والوں کو دکانیں بند کرنے کاحکم ہے تو پھر شام سے پہلے جانا تو پڑے گاشام کو گرمی کی شدت نہیں ہوتی اگر دوپہر کے وقت کا چنا کریں تو دھوپ میں جل کر واپس آنا پڑے گا۔لاک ڈان ابھی پورے طور پر ختم نہیں ہوا اور یہ حال ہے پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کرے اور جلد ہو لاک ڈن ختم ہو تو شہر پشاور میں کم ترین سڑکوں پر تو بس گاڑیاں ہی گاڑیاں ہوں گی اور لوگ ہی لوگ ہوںگے ۔ لگتا ہے کہ ملک کی بائیس کروڑ کی آبادی پشاو ر بھیج دی گئی ہے ۔
ایک کونے سے لو اور دوسرے کونے تک نہ کوئی بازار اس بھیڑ سے محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی چھوٹی اور بڑی سڑک ۔ رنگ روڈ ہے جو کشادہ ہے او رشہر سے باہر اٹھائیس میل ہے مگر کون سی گاڑی ہے جو یہاں نہیں چلتی اور کون سی ہوا ہے جو اپنے زہر آلود گرد آلود جھونکے نہیں دیتی ہر گاڑی یہاں گھسی ہے اگر کہیں کہ کھلا کھلا جائیں اور رش سے بچ جائیں تو یہ خیال ہے او روہم ہوگا کیونکہ عید سے پہلے کے دن ہیں شام سے پہلے کا وقت ہے ۔ لوگوں کو دکانیں بند کرکے وہ دور گھر جہاں بسا رکھے ہیں پہنچنے کی جلدی ہے ۔ جی ٹی روڈ ہے یا سٹی سرکلر روڈ ہے یونیورسٹی روڈ یا چارسدہ روڈ یا ورسک روڈ ہر طرف گاڑیوں کا ہجوم ہے ہر شہری نے بینک ہی سے سہی مگر اپنے لئے گاڑی نکلوائی ہے سڑکوں کو روند رہا ہے جلد ہی شہر میں پیدل چلنے والے یہ کم لوگ بھی اپنی قسطوں پر نکلوائی گاڑیوں میں سوار ہو جائیں گے۔ پشاو رپر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جس کا بس چلتا ہے پشاو رکے دروازوں کے اندر کے بازاروں کا رخ کرتا ہے خواہ سودا سلف لینا ہے یا یونہی بیکار میں سر سپاٹا کرنا ہے۔