کورونا وبا کی وجہ سے معطل ”عالمی کرکٹ کی بحالی“ اور تیاری کا آغاز اُسی ملک سے ہوا‘ جہاں سے اِس کھیل نے جنم لیا تھا۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان اُن پہلے چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے باوجود تمام تر خطرات اپنے کھلاڑیوں کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا اور یقینا کرکٹ کے عالمی فیصلہ ساز پاکستان کی اِس نیک نیتی اور جذبے کی قدر کریں گے تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ برطانیہ سے قبل خاطرخواہ سوچ بچار نہیں کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ بورڈ نے فاسٹ باﺅلرمحمد عامر کو طلب کیا ہے اور اِس فوری طلبی کا محرک چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کی خواہش بتایا گیا ہے جہاں عامر ’ٹی ٹوئنٹی سیریز‘ کے لئے دستیاب ہوں گے اور اُمید ہے کہ شائقین کرکٹ کو ایک طویل وقفے کے بعد بہترین کھیل دیکھنے کا موقع ملے گا۔ اس سے قبل جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا برطانیہ کے دورے کے لئے اِنتخاب کا عمل جاری تھا تو عامر نے معذرت کر لی تھی تاہم اب بیٹی کی پیدائش کے بعد انہوں نے بھی برطانیہ جانے کے لئے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ فاسٹ باﺅلر حارث رو¿ف کے پانچ مرتبہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پاکستان ٹیم کو تجربہ کار باو¿لر کی بہرحال ضرورت تھی‘ جسے عامر پوری کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں تاہم کرکٹ کے شائقین اور ماہرین کے حلقے اِس فیصلے سے زیادہ خوش نہیں اور سوشل میڈیا پر جاری بحث میں حصہ لینے والے اکثر افراد کا خیال ہے کہ ”پاکستان کرکٹ بورڈ امتیازی سلوک رکھتا ہے اور اِس نے ہمیشہ ہی سے محمد عامر کو نظرانداز کیا اور اُس کے معاملے میں نرم گوشہ اختیار کئے رکھا ہوا ہے۔“ سابق کپتان راشد لطیف کا یہ تبصرہ لائق توجہ ہے کہ ”پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے فیصلے کرنے میں ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک عامر کو برطانیہ بھیجنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں ملے جلے تاثرات ہیں اگر وہ ٹیسٹ میچ کے لئے بھی دستیاب ہوئے تو اسے اچھا فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔“ عامر کی کارکردگی پر سوال اُٹھانے والے گزشتہ تین برس میں اُن کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا مشورہ دے رہے ہیںکہ محمد عامر ایک ایسا منظور نظر ہے جس نے تین برس میں کوئی میچ نہیں جتوایا لیکن وہ انوکھا لاڈلہ بنے ہوئے ہیں!
ذہن نشین رہے کہ کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے محمدعامر کو پانچ سال عالمی کرکٹ سے الگ رہنا پڑا تھا! پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنے والی کرکٹ ٹیم کے بارے میں فیصلے شفاف اور اہلیت پر مبنی ہونے چاہئے۔ کوئی بھی کھلاڑی ناگزیر نہیں بلکہ بہت سارا ٹیلنٹ نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور نئے کھلاڑیوں کو بہت کم آگے آنے کے مواقع ملتے ہیں! کرکٹ بورڈ کے امور کو سیاسی کہنے کی بجائے اگر امتیازی کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود اور جواب طلب ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے جو باﺅلرز مشکل حالات میں کام آئے اُنہیں برطانیہ کے دورے میں کیوں کھیلنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا اِس سلسلے میں نوجوان فاسٹ بولر موسیٰ خان کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جن کے حق میں دلائل اور آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں۔ عامر کی کارکردگی میں سپاٹ فکسنگ سے پہلے اور بعد زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی وہ تقسیم ہے جس نے اُن کی شخصیت کو بھی دو پلڑوں میں ڈال رکھا ہے۔ پہلا حصہ کیریئر کے آغاز کا ہے جس میں وہ سپاٹ فکسنگ کا حصہ بنے اور یہ وہ دور تھا جب انتہائی باصلاحیت اور خطرناک سوئنگ باﺅلر کے طور پر سامنے آئے تھے تاہم سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے اُنہیں پانچ سال عالمی کرکٹ مقابلوں سے الگ رہنا پڑا جس کے بعد واپسی پر اگرچہ وہ تینوں طریقوں سے کھیلی جانے والی عالمی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی میں مستقل مزاجی اور اعتماد کا فقدان نمایاں ہے۔ اٹھائیس سالہ عامر سب سے اہم فارمیٹ یعنی ٹیسٹ کرکٹ سے الگ اور سنٹرل کنٹریکٹ سے باہر ہیں لیکن اس کے باوجود جب بھی ٹیم کو ضرورت ہوتی ہے تو فیصلہ سازوں کی نظریں عامر پر ہی جا ٹھہرتی ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قومی کرکٹ کے منظرنامے پر ایسے کھلاڑی موجود ہے جو ہر لحاظ سے محمد عامرکے مقابلے میں بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہےں مگر نظریںمحمد عامر پر ہی کیوں جمی ہےں ‘آخر ایسا کیوں ہے؟ کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت اور مختلف انداز میں جاری تو نہیں؟