امریکی ذرائع ابلاغ افغانستان پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے اور اکثریت امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بے ترتیب پسپائی کے دو سال مکمل ہونے پر ’آپریشن کی نگرانی کرنے والے امریکی جنرل‘ کی مذمت کر رہے ہیں جنہوں نے پہلے ہی امریکی شکست پر افسوس کا اظہار کر رکھا ہے۔ حال ہی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل کینتھ میک کینزی‘ جو اُس وقت خطے میں امریکی فوجی کاروائیوں کی نگرانی کر رہے تھے اور امریکی فوج یعنی ’سینٹ کام‘ نامی مشن کے سربراہ تھے اُنہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلأ کو ’مہلک‘ قرار دیا اور اِسے ’غلطی‘ بھی کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ’غلط فیصلہ‘ تھا اور امریکہ کے جانے سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملا ہے جنرل کی جانب سے افغانستان سے امریکی افواج کے اخراج سے متعلق حکمت عملی نے نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے لیکن جس ایک بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج تمام تر وسائل اور معلومات کے باوجود طویل عرصے تک افغانستان میں کیوں پھنسے رہے۔نائن الیون کے مبینہ دہشت گرد حملوں میں القاعدہ کے کردار کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے انسداد دہشت گردی کی جو کاروائی کی گئی تھی وہ بعدازاں امریکہ کی طویل ترین جنگ میں تبدیل ہو گئی جو ایک ڈراؤنا خواب بن گیا اور امریکہ نے افغانستان پر جزوی فوجی قبضہ کر لیا۔ جو جزوی طور پر مہذب مشن تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ ان تمام معاملات میں ناکام رہا۔ امریکہ نے افغان جنگ کی کوششوں پر 9 کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے جبکہ امریکی فوجیوں سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود اب تک سب سے زیادہ متاثرین افغان عوام تھے کچھ مطالعات کے مطابق نائن الیون کے بعد شروع ہوئی افغان جنگ کے دوران 47 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے اور خون خرابے کے علاؤہ تباہی و بربادی جیسے نقصانات بھی ہوئے جبکہ اِن سبھی کا حتمی نتیجہ ایک ایسی افغان حکومت کی صورت برآمد ہوا جس نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ افغانستان سے انخلأ کے بعد‘ اب داعش تنظیم کے منظم ہونے سے متعلق امریکی فوجی سربراہ کے اعتراف سے دولت اسلامیہ کو تقویت ملی ہے جبکہ کالعدم عسکریت پسند گروہوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ امریکہ نے انخلأ کے بعد ہتھیاروں سمیت اربوں ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان افغانستان میں چھوڑا جو عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے اگرچہ وائٹ ہاؤس نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا لیکن امریکی فوج کے مرکز (پینٹاگون) کی جانب سے کانگریس کو فراہم کی جانے والی دستاویزات سے ایک پریشان کن تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ عراق پر امریکی حملے میں بھی اسی طرح کی ’کامیابیاں‘ دیکھنے میں آئی ہیں کہ عسکریت پسند اُبھر رہے ہیں اور افغان معاشرے کی رواداری و ترقی کا سفر رک گیا ہے اور افغان معاشرہ بکھر کر رہ گیا ہے۔ کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اِس پوری صورتحال سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ بدقسمتی سے اِس سوال کا جواب نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کی حمایت کے نام پر امریکہ دنیا میں جو کچھ بھی کر رہا ہے اُس سے صرف افغانستان نہیں بلکہ بہت سے دیگر ممالک بھی متاثر یا تباہ ہو چکے ہیں جبکہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی دنیا میں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں۔ افغان سرزمین اور مبینہ طور پر حکومتی وسائل کا استعمال کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ امریکہ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے‘ جس نے افغانستان اور پاکستان کی سکیورٹی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔