ممالک کے درمیان تجارتی اتحاد خوش آئند ہوتے ہیں لیکن اس کا آغاز کسی دوسری ترقیاتی حکمت عملی کی رفتار کم کرنے یا اُسے پٹری سے اتارنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (BRI)‘ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)‘ منصوبے کے خلاف سوچی سمجھی سازش چل رہی ہے۔ امریکی صدر کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران جس تجارتی راہداری کی رونمائی کی گئی ہے اُس لب لباب یہ ہے کہ بھارت کو مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں سے منسلک کر دیا جائے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے تو اِس کی وجہ بھی سادہ ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے یہ ممالک پہلے ہی کواڈ کا حصہ ہیں‘ جو مختلف مقاصد کے لئے بنایا گیا اتحاد ہے اور اِس کے قیام کا بنیادی مقصد ’چین‘ کی مخالفت ہے۔ اِس سے قبل چین کی اِس حد تک مخالفت کی گئی ہے کہ ’بی آر آئی‘ اور ’سی پیک‘ پر پیشرفت روکنے کے لئے مداخلت کی گئی تاکہ بیجنگ اپنے اربوں ڈالر کے ’بی آر آئی‘ کے تحت جو اقدامات کر رہا ہے انہیں ناکام بنایا جا سکے۔ ذہن نشین رہے کہ ’بی آر آئی‘ پانچ براعظموں کے ساٹھ سے زائد ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کا نام جان بوجھ کر لیا گیا ہے اور شاید اس میں متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک بھی شامل ہیں۔ بھارت سے شروع ہونے والی مذکورہ تجارتی راہداری سے پاکستان کو تنہا کرنے کا پیغام دیا گیا ہے لیکن کسی بھی طرح سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ چھ خلیجی ممالک پاکستان سے تعاون کو کس قدر ضروری سمجھتے ہیں اور شاید وہ کبھی بھی دوسروں کو پاکستان پرترجیح نہ دیں۔ پاکستان نے حال ہی میں ریاض اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ سٹریٹجک اقتصادی معاہدے کئے ہیں اور سرمایہ کاری‘ تیل و گیس اور کان کنی کے شعبوں میں طویل مدتی تعاون کی حکمت عملی بھی وضع کی جا چکی ہے لہٰذا امریکہ جس مبینہ ٹرائیکا کا اشارہ دے رہا ہے‘ اُسے پرسکون انداز میں پڑھ کر محظوظ ہونا چاہئے کیونکہ اِس کی کامیابی کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔عرصہ دراز سے واضح ہے کہ صدر بائیڈن کی قیادت میں امریکہ کی سوچ اور ہر ممکنہ وسائل کا استعمال ’بی آر آئی‘ اور ’سی پیک‘ کو ناکام دیکھنا چاہتی ہے اور اِس مقصد کے لئے انہوں نے یورپ میں پانچ سو ارب ڈالر کا بین الاقوامی اتحاد بھی تشکیل دیا۔ چین اِس پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اُس نے تجارت اور رابطے میں امریکی اور یورپی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنا غیر حقیقی ہے کہ آبنائے ہرمز سے بھارت کے ساحلوں تک کوئی بھی تجارتی رابطہ ایران اور پاکستان کے جغرافیہ سے استفادہ کئے بغیر ممکن ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی چین مخالفت میں کسی بھی انتہا تک جانے سے پہلے اپنی کثیر الجہتی ترقیاتی حکمت عملی میں پاکستان کو شامل کرنے ہی سے کامیابی ممکن ہے۔