پشاور سے اکٹھے کئے گئے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ اِس کھوج میں پشاور کے علاو¿ہ کراچی کے مختلف علاقوں سے بھی نمونے اکٹھا کئے گئے تھے اور پشاور و کراچی دونوں مقامات پر پولیو وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی ہے جو قومی سطح پر انسداد پولیو مہمات کے فیصلہ سازوں کے پریشانی اور شرمندگی کا باعث امر ہے کہ تمام تر کوششوں اور ہر ممکنہ وسائل کا استعمال کرنے کے باوجود پاکستان پولیو کو شکست نہیں دے پا رہا اور اب دنیا کے صرف دو ہی ممالک میں پولیو وائرس موجود ہے۔ ایک پاکستان اور دوسرا افغانستان۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ اگر پولیو سے پاک (فری) پاکستان کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہ ہو سکیں تو اندیشہ ہے کہ پاکستان سے عالمی پروازوں پر پابندی عائد ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے کاروباری طبقات پاک فوج کے سربراہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس طرح اُنہوں نے معیشت کی بہتری کا بیڑا اُٹھایا ہے اُسی طرح انسداد پولیو مہمات میں پائی جانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے میں کردار ادا کریں تاکہ پولیو فری پاکستان کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہو سکے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)‘ میں پاکستان کی نیشنل پولیو لیبارٹری (لیب) کے ذرائع نے کہا ہے کہ کراچی اور پشاور کے چار ماحولیاتی نمونوں میں ٹائپ ون وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی ون) کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ ماحولیاتی نمونے نکاسی¿ آب (سیوریج) سے حاصل کئے گئے اور پشاور و کراچی کے اُن علاقوں سے اکٹھا کئے گئے جہاں کم آمدنی رکھنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ پولیو لیبارٹری کے مطابق پشاور سے تین نمونے جمع کئے گئے تھے اور ایک نمونہ ضلع کراچی کے علاقے کیماڑی کے علاقے سے جمع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں سال دوہزارتیئس میں پہلی بار پولیو وائرس کی تصدیق ماہ¿ جون کے دوران سہراب گوٹھ میں ہوئی تھی اور وہاں سے بھی اکٹھا کئے گئے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا تھا۔ اس سے قبل کراچی میں پولیو کے مثبت نمونے اگست 2022ءمیں لانڈھی اور ملیر سے ملے تھے۔ توجہ طلب یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی میں پولیو کی موجودگی کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ کئی آبادی کے مراکز میں پائی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جہاں کہیں پولیو وائرس سیوریج کے پانی میں پایا جاتا ہے تو اس کے نمونے کو مثبت کہا جاتا ہے۔ کسی علاقے کے سیوریج کے پانی کے نمونے پولیو مہم کی کامیابی کا تعین کرنے کے بنیادی پیرامیٹرز ہیں‘ سیوریج میں وائرس کی موجودگی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں بچوں کی قوت مدافعت میں کمی آئی ہے اور انہیں یہ بیماری (پولیو) لگنے کا خطرہ موجود ہے۔ ’پاکستان پولیو پروگرام‘ ہر ماہ ملک کے ایک سو چودہ مقررہ ماحولیاتی مقامات پر پولیو وائرس کی جانچ کر رہا ہے‘ زیادہ خطرے والے علاقوں میں نگرانی کو مزید بڑھانے کے لئے یہ وقتاً فوقتاً متعدد مقامات سے سیوریج کے اضافی نمونے بھی جمع کرتا رہا ہے‘ مزید برآں افغانستان اور یمن سے اکٹھے کئے گئے ماحولیاتی نمونوں کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پولیو انتہائی متعدی اور لاعلاج بیماری ہے‘ یہ پولیو نامی جرثومے (وائرس) کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے اور بنیادی طور پر پانچ سال یا اِس سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے‘ یہ وائرس اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں فالج یا موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پولیو کا تاحال کوئی علاج نہیں۔ بار بار ویکسی نیشن بچوں کی حفاظت کا سب سے مو¿ثر طریقہ ہے‘ پولیو ویکسین نے لاکھوں بچوں کی پولیو سے حفاظت ممکن بنائی ہے‘ جس سے دنیا کے تقریباً تمام ممالک پولیو سے پاک ہوچکے ہیں اور اب صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ملک ہیں جہاں پولیو وائرس بطور خطرہ تاحال موجود ہے۔