پاکستانی ٹیم انتظامیہ کو بھارت کے خلاف چوتھے فاسٹ باﺅلر کی کمی اتنی شدت سے محسوس ہوئی کہ بنگلہ دیش کے خلاف ٹیم چار فاسٹ باﺅلرز کے ساتھ ہی میدان میں اتری۔ شاہین آفریدی اس بار پہلے اوور میں وکٹ لینے میں کامیاب نہ ہوئے تو یہ کام نسیم شاہ نے بہ خوبی انجام دیا۔ پچ بھی فاسٹ باﺅلرز کے لیے مددگار تھی اور حارث رﺅف بھی ردھم میں تھے تو جلد ہی بنگلہ دیشی ٹیم اپنی چار وکٹیں کھو چکی تھی۔پانچویں وکٹ پر ایک بار پھر بڑی پارٹنرشپ دیکھنے کو ملی تو قومی ٹیم کی سپن باﺅلنگ کی کمزوریاں پھر زیر بحث آنے لگیں۔ بنگلہ دیش کے دو سب سے زیادہ تجربہ کار بیٹسمین کریز پر تھے اور ابتدائی بیٹسمینوں کی طرح کسی بھی قسم کی غلطی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شکیب الحسن اور مشفق الرحیم نے اس دوران بہت عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا لیکن بھارت کے ساتھ کھیلے جانے والے میچ کی طرح یہاں بھی شاداب کی باﺅلنگ میں کچھ خاص دم نہ تھا۔ شاداب ہوں یا نواز، دونوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ دونوں صرف رنز روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اچھی ٹیموں کے مقابلے میں ان دونوں کے وکٹ حاصل کرنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔یوں تو شاداب خان نے اس سال اب تک 9 میچز میں گیارہ وکٹیں حاصل کی ہیں لیکن ان میں سے 7 وکٹیں نیپال اور افغانستان کے خلاف حاصل کی گئی ہیں۔ اس سال کھیلے گئے 8 ٹی20 میچز میں بھی شاداب نے 6 وکٹیں حاصل کی ہیں جن میں سے 3 وکٹیں افغانستان کے خلاف ایک ہی میچ میں حاصل کی گئی تھیں۔ شاداب خان اپنی عمدہ بیٹنگ اور شاندار فیلڈنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کا لازمی حصہ تو ہیں لیکن انہیں اپنی باﺅلنگ کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔ درمیانے اوورز میں شاداب خان کی جانب سے حاصل کی گئی ایک یا دو وکٹیں میچ کا پانسہ پلٹ سکتی ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں فاسٹ باﺅلرز پر دباﺅ بہت بڑھ جاتا ہے۔پانچویں وکٹ کی شراکت ختم ہوئی تو چند ہی اوورز میں بنگلہ دیشی اننگز بھی اختتام کو پہنچ گئی۔ باقی کے بنگلہ دیشی بیٹسمین تاش کے پتوں کی طرح بکھرگئے۔ حارث رﺅف اور نسیم شاہ نے اس تباہی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایک وکٹ افتخار احمد کے نام نہ ہوتی تو مسلسل دوسرے ون ڈے میں پاکستانی فاسٹ باﺅلرز دس وکٹیں حاصل کر سکتے تھے۔ حارث رﺅف ایک وقت ہیٹ ٹرک پر بھی تھے پر مکمل نہ کر سکے۔ امید ہے کہ مسلسل اچھی کارکردگی حارث کی رینکنگ میں بہتری کا باعث ضرور بنے گی جس کا پاکستانی کرکٹ شائقین کو بھرپور انتظار ہے۔دن کے وقت بھی پچ فاسٹ بالرز کے لیے مددگار تھی جو فلڈ لائٹس میں اور بڑھ گئی۔ کچھ فخر فارم میں نہ تھے اور امام الحق بھی کریز پر پر سکون نہ تھے۔ بنگلہ دیشی فاسٹ باﺅلرز پچھلے کچھ عرصے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہاں بھی وہ سلسلہ جاری رہا۔ امام اور فخر کئی بار بچے اور پھر فخر کی خوش قسمتی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ون ڈے میں فخر زمان کی جانب سے اس سال 3 سنچریاں دیکھنے کو ملیں لیکن آخری سنچری کے بعد سے کھیلی گئی آٹھ اننگز میں فخر زمان صرف 159 رنز ہی بناسکے ہیں۔ فخر کی جانب سے بنائے گئے کم رنز تو باعث تشویش ہیں ہی لیکن ساتھ ہی ہر اننگ میں فخر کا کریز پر گزارا وقت، کھیلی گئی شاٹس اور اعتماد کی کمی زیادہ باعث تشویش ہے۔ کیا اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی ٹیم انتظامیہ اگلے میچز میں عبداللہ شفیق کو موقع دے کر دیکھ لے تاکہ ورلڈکپ میں ایسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔فخر کی طرح بابر اعظم بھی کریز پر زیادہ وقت نہ گزار سکے۔ اس دوران بھی بابر دو تین سے زیادہ پر اعتماد شاٹس نہ کھیل سکے اور پھر تسکین کی ایک گیند نیچی رہ کر بابر کی پویلین واپسی کا انتظام کر گئی۔ لیکن کریز پر اس مختصر قیام کے دوران بھی بابر اعظم ایک ریکارڈ توڑگئے۔ اس بار ریکارڈ تھا بطور کپتان تیز ترین دو ہزار رنز، جو پہلے ورات کوہلی کے پاس تھا۔ کوہلی نے بطور کپتان دو ہزار رنز 36 اننگز میں مکمل کیے تھے جبکہ بابر یہ سنگ میل اکتیسویں اننگ میں ہی عبور کر گئے۔اسی دوران امام کے خلاف کئی پرجوش ایل بی ڈبلیو اپیلز بھی ہوئیں، بنگلہ دیش نے دو ریویوز بھی ضائع کر دیے اور ایک بار تو امپائر نے امام کو ایل بی ڈبلیو قرار بھی دے دیا لیکن امام ہر بار بچ گئے۔ اس وقت تک امام الحق ایل بی ڈبلیو ہونے کے بہترین امیدوار تھے، آگے والی ٹانگ آف سٹمپ پر باہر جا رہی تھی، سر لیگ سٹمپ کی جانب جا رہا تھا پر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ایل بی ڈبلیو کی کئی اپیلز اور کیچز کے فیلڈرز تک نہ پہنچ پانے کے بعد امام نے محمد رضوان کے ساتھ ایک عمدہ شراکت قائم کی۔ اس وقت تک محمد رضوان واحد پر اعتماد پاکستانی بیٹسمین لگ رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ امام الحق کا اعتماد بھی واپس آتا چلا گیا۔ امام نے خاص طور پرسپنرز کو بہت عمدہ کھیلا اور پھر ایک سپنر کو ہی وکٹ بھی دے دی۔ اس کے بعد محمد رضوان اور آغا سلمان نے کوئی غلطی نہیں کی اور سپر فور کے پہلے میچ میں پاکستان کو فتح سے ہم کنار کر دیا۔ایشیا کپ سپر فور مرحلے کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف یہ پاکستان کی آسان فتح تھی لیکن سارا دن اس میچ سے زیادہ اگلے میچز زیر بحث رہے۔ ایشیا کپ کے باقی تمام میچز کولمبو میں کھیلے جانے ہیں جہاں فائنل تک روزانہ بارش کا بھرپور امکان موجود ہے۔ خبریں تھیں کہ شاید باقی تمام میچز ہمبنٹوٹا منتقل کر دیے جائیں جہاں بارش کا امکان بہت کم ہے۔ منگل کو ایسی خبریں بھی چلیں کہ میچز کی منتقلی کا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن پھر شاید بھارتی کرکٹ بورڈ کے نہ ماننے پر باقی میچز کولمبو میں ہی کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب جانے اس فیصلے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں مگر کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ شاید بھارتی کرکٹ بورڈ پاکستان پیس اٹیک سے اتنا خوفزدہ ہے کہ میچز کی منتقلی سے میچز کی منسوخی بہتر سمجھ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل اور انڈین کرکٹ بورڈ کی یہ ضد کیا رنگ لاتی ہے۔ جہاں تک قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس نے ایشیاءکپ کے دوران بتا دیا کہ آنے والے ورلڈ کپ میں اس کامقابلہ آسان نہیں۔