اقوام متحدہ کے ادارے ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ نے کہا ہے کہ ”ادارے کو ملنے والی عالمی امداد میں کمی کی وجہ سے افغانستان میں فراہم کی جانے والی خوردنی امداد (اشیائے خوردونوش) میں کمی لائی جا رہی ہے اور مجبوراً 2 لاکھ افغانیوں کے نام امدادی فہرست سے خارج کرنا پڑ رہے ہیں۔ ’ڈبلیو ایف پی‘ نے اِس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی امداد میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو ایسے لاکھوں افغانوں کو دی جانے والی امداد بند کر دی جائے گی جو مستحق ہیں اور جن کا گزر بسر ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کی طرف سے دی جانے والی امداد پر منحصر ہے۔ افغانستان میں ڈبلیو ایف پی کے حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ وسائل سے ہر ماہ تین لاکھ افراد کو خوردنی اشیا بطور امداد دے سکتے ہیں۔ کابل میں مقیم ڈبلیو ایف پی کے کنٹری ڈائریکٹر سیاو¿ وی لی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ”بھوک اور غذائی قلت کی پہلے ہی سے موجود تشویش ناک صورتحال میں‘ بھوک و غربت سے متاثرہ افراد میں سے مستحقین کا انتخاب کرنا قطعی آسان نہیں ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ افغانستان معاشی مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے جہاں لاکھوں خاندان اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور اُنہیں عالمی ادارے کی جانب سے خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ رواں برس مارچ میں بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے فراہم کئے جانے والے راشن میں پچاس فیصد جیسی غیرمعمولی کمی کی تھی اور اب کہا جا رہا ہے کہ اگلے دو ماہ میں مزید دو لاکھ افراد کو دی جانے والی غذائی امداد بند کی جائے گی۔ اس طرح رواں سال ’ڈبلیو ایف پی‘ کی مدد کے بغیر مستحق افغانوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے جبکہ یہ اعدادوشمار اپنی جگہ پریشان کن ہیں کہ ایک تہائی سے زیادہ افغان آبادی کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اور یہ ہر رات بھوکے سوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کی سنگینی میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا اور شہریوں کو بھوک پیاس اور مزید معاشی مشکلات کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔ یہ صورتحال بالخصوص خواتین بچوں اور بزرگ شہریوں کے لئے خطرے کی بات ہیں کیونکہ افغان معاشرہ تیزی سے پسماندگی کی طرف جا رہا‘ جس کی وجہ عوام کی اکثریت کے لئے گزر بسر کرنے یا گھرانوں کی کفالت کے لئے محدود وسائل موجود ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری افغان حکومت کی توجہ اُن نتائج اور اَثرات کی جانب مبذول کروا رہی ہے جو ملکی قوانین اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی وجہ سے عوام کے لئے مشکل و پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اگر افغان حکومت نے عالمی سطح پر اُٹھائی جانے والی آوازوں کو نہ سنا تو افغانستان کو دی جانے والی امداد مزید کم کر دی جائے گی جس سے عوام متاثر ہوں گے۔ موجودہ صورتحال میں چودہ لاکھ خواتین اور شیرخوار بچوں کو خاطرخواہ غذا میسر نہیں۔ افغانستان میں بنیادی ضرورت کی اشیا کی قلت ہے اور اِس زمینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (او سی ایچ اے) نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کو بے مثال انسانی بحران کا سامنا ہے جس میں ”نظام مملکت اور انسانی تباہی کا سنگین خطرہ“ ہے لیکن افغان حکومت اِس خطرے کو محسوس نہیں کر رہی۔ اعدادوشمار کے مطابق اقتدار سنبھالنے کے بعد (عرصہ دو سال میں) افغانستان کے قریب تین کروڑ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں اگر ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے تو آئندہ کھانا پینا ملنے کی اُمید نہیں ہوتی اور اِن تین لاکھ میں سے اکثریت کو بنا کچھ کھائے پیے رات کو سونا پڑتا ہے۔ افغانستان کی آبادی کا دو تہائی سے زیادہ حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ افغان فنڈنگ کے بحران سے نمٹنے کے لئے ’ڈبلیو ایف پی‘ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اگلے چھ ماہ کے دوران اضافی ایک ارب ڈالر فراہم کرے تاکہ دس لاکھ افراد تک زندگی بچانے والی امداد (خوراک اور ادویات) پہنچائی جا سکیں۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ افغانستان کے بیشتر حصوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور موسم سرما کے آغاز سے پہلے دور دراز کی آبادیوں تک اشیائے خوردونوش پہنچائی جاتی ہیں۔ افغانستان ایک انسانی بحران سے دوچار ہے جبکہ زیادہ بڑا انسانی بحران دستک دے رہا ہے۔ چالیس سال سے جاری تنازعے نے افغان مفلوج معیشت و معاشرت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ زرعی پیداوار اور قومی صنعتی پیداوار اِس قدر نہیں کہ عوام کی کفالت کے لئے کافی ہو۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ اِس انسانی بحران کے اثرات کا سامنا کرنے والے سب سے کمزور خواتین طبقات میں بچے شامل ہیں‘۔ اقوام متحدہ کے بقول ”شدید مالی بحران“ کی وجہ سے افغانستان کو زندگی بچانے والی امداد کی زیادہ ضرورت ہے لیکن مجبوراً یہ امداد کم کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بھوک و افلاس پہلے ہی بلند ترین (ریکارڈ) سطح پر ہو‘ وہاں اگر عالمی امداد میں کمی کی جائے گی تو اِس سے افغانستان سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور زیادہ بڑی تعداد میں افغان پاکستان کا رخ کریں گے۔افغانستان کی اس حالت کے ذمہ دار وہ ممالک ہیں جنہوں نے یہاں پر کئی دہائیوں سے اپنی موجودگی سے اس ملک کی معیشت کو تہہ و بالا کیا اور ا سکی ترقی کیلئے کوئی پائیدار پالیسی نہیں اپنائی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اپنی تمام طاقت کے ساتھ یہاں پر موجود رہے تاہم انہوں نے افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن لانے اور یہاںپر عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کوئی ٹھوس کوششٰں نہیں کیں۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ افغانستان بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود عالمی برداری کی مدد سے ہی اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہے اور اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ملکی وسائل سے اس کا مقابلہ کرنے اور ان مسائل کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔