انڈیا کی میزبانی میں ہونے والے 2 روزہ جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے عالمی رہنما نئی دہلی میں جمع ہوئے اور اِس ہائی پروفائل ایونٹ میں امریکی صدر کی شرکت سے اجلاس غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ جی ٹوئنٹی نامی تنظیم کے ممالک نے جن امور پر اتفاق رائے کیا وہ حقیقت میں دنیا کو درپیش بنیادی مسائل ہیں اور دنیا کے طاقتور ترین ممالک اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی مضبوط معیشتوں کے مندوبین کی جانب سے یوکرین میں جنگ کرنے پر روس کی مذمت سے گریز بہت ہی خاص بات ہے لیکن تمام ریاستوں نے زور دیا کہ روس طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ اجلاس میں چین اور روس کے سربراہان مملکت نے شرکت نہیں کی۔ صدر شی جن پنگ کی جگہ وزیر اعظم لی کیانگ نے چین کے وفد کی قیادت کی جبکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی نمائندگی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کی۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ ریلوے اور سمندری راستوں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے منصوبے پر دستخط کئے جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا جواب قرار دیا جا رہا ہے اور اس متعلق اطلاعات اور نقشہ جات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک اور یورپی یونین جسے ’چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کا مقابلہ کرنے کے سب سے بڑے اقدام‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے!جب دنیا کی سیاسی اشرافیہ دہلی کے فانوس والے ہال میں ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑ رہی تھی تو باہر کی سڑکیں ایک مختلف بھارت کو ظاہر کر رہی تھیں جی ٹوئنٹی میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا ’شائننگ انڈیا‘ افراتفری سے بھرے ایک پرتشدد ملک کی عکاسی کرتا ہے جس کے سربراہ انتہا پسند تنظیم کے رکن مودی ہیں اور بی جے پی حکومت فرقہ وارانہ فسادات اور تشدد میں ملوث ہے۔ الجزیرہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے کہا کہ ”امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں مین اسٹریم میڈیا بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تنقید کر رہا ہے لیکن حکومتوں کا ایجنڈا عوامی اور میڈیا کے ایجنڈے سے بالکل مختلف ہے لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اتنا سادہ لوح ہونے کی ضرورت ہے کہ یہاں آنے والے رہنماؤں کے لئے یہ کوئی مسئلہ ہے۔“ انہوں نے بالکل درست نشاندہی کی کہ امریکی صدر یا فرانسیسی صدر جانتے ہیں کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھارت میں کھلے عام ظلم ہو رہا ہے اور اِن کا قتل عام جاری ہے لیکن اِنہیں اِس کی پرواہ نہیں ہے کیونکہ ”ان کی تمام آنکھوں میں ڈالر ہیں اور وہ ایک ارب آبادی کی بھارتی مارکیٹ کو ممکنہ فائدے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں“ بھارت اور مودی حکومت کے بارے میں میڈیا یا کارکنوں کی تنقید کا عالمی معیشتوں اور ان کے رہنماؤں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے اور دنیا اُسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لئے معافی دے چکی ہے۔ اس سے پاکستان جیسے ملک کے لئے اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ کیا ہم واقعی یہ توقع کر رہے ہیں کہ دنیا پاکستان کی معاشی کمزوریوں پر دھیان دے گی جبکہ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان مشکل سے خود کو ڈیفالٹ سے بچانے میں کامیاب ہوا ہے؟ کیا پاکستان کو کم از کم اپنا گھر درست کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تاکہ بھارت کی طرح ہماری آواز بھی معاشی‘ سیاسی اور سماجی لحاظ سے مساوی طور پر سنی جائے؟ (ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!)