مصروفیات میں مصروف

 ہمارا ٹیلنٹ ضائع ہو رہاہے باہر ملک کے ترقی یافتہ معاشروں کے باشندے اپنی مصروفیات میں مصروف ہیں اس لئے ان کے پاس فضولیات کےلئے ٹائم نہیں بچتا۔ وہاں تو صبح کام کےلئے جانے والے لوگ جب شام گھر آتے ہیں تو اتنے تھکے ہوئے ہو تے ہیں کہ بیڈ پر منہ کے بل گرتے ہیں اور وہیں سو جاتے ہیں ۔ ان کے بوٹ اتارنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ گھر کے باقی افراد بھی تو اسی طرح کام پر گئے ہوتے ہیں۔ سو وہ دوسرے دن صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو بوٹ اتار کر فریش ہو کر پھر سے دفتر جانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ایسے میں وہ ناشتہ بھی سنیڈ وچ کھاتے ہوئے بس کے انتظار میں لگی ہوئی قطار میں کھڑے کھڑے کرتے ہیں۔مگر ہمار ے ہاں خاص طور پردیکھا گیا ہے کہ بعض نوجوان بہت فارغ ہیں۔ گرمی کے ان دنوں تو ان کا ایک یہ کام ضرور ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ پانی کا پائپ لگ گیا تو وہ اپنی دکان کے باہر یا گھر کے دروازے پر جا کر راستے میں دھول مٹی بٹھانے کیلئے چھڑکا کرنا شروع کر دیتا ہے حالانکہ سڑک پانی سے گیلی ہوچکی ہوتی ہے ۔مگریہ اپنے ہاتھ سے پانی کی نلی نہیں چھوڑیں گے۔ پھر مسلسل بلاضرورت پانی ڈالتے جائیں گے۔ اس موقع پر کئی لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ سو آج کل ہمارے نوجوانوں کا جو فارغ ہیں اکثر و بیشتر یہی مشغلہ ہے ۔یہ لوگ یا تو خود لڑتے ہیں اگر نہ ہو سکے تو پھر مرغ لڑانا اور کتے لڑانا بٹیر لڑانا ان کے بہترین مشاغل ہیں ۔ پھر کہیں نہ جائیں فراغت کو بہلانے کے کئی اور مشغلے بھی تو ہیں ۔ کبوتر بازی ، تاش بازی ، گڈی بازی اور جانے کون کون سی بازیاں ہیں جو یہ ہوا میں کھاتے ہوئے خیالی پلا پکاکر زمین پر آتے جاتے ہیں۔ویسے ہوا بازی تو انتہائی خطرناک کھیل ہے ۔

لیکن بازی کوئی ہو اچھی نہیں۔ہوابازی میں کتنے بڑے مشہور لوگ بدنام ہوئے ۔ اتنے کہ اب ان سے استعفے مانگے جا رہے ہیں کہ کسی اہل آدمی کے لئے جگہ خالی کر دو۔ مگر وہ بھی ڈھٹائی میں راج سنگھاسن پر یوں بیٹھے ہیں کہ جیسے پرانے زمانوں کے بادشاہ یہی ہوں۔کیونکہ بادشاہی میں جو مزہ ہے اور کہاں۔ خواہ عزت ککھ پہ جائے اور لاکھوں میں نہ آئے۔سوچتا ہوںہمارے لوگوں کے لئے جن میں اکثر بے روزگار ہیں اور کام دھندہ نہیں ان کو چندہ وصول کرنے پر لگا دیا جائے تو راتوں رات بڑے بڑے ڈیموں کے لئے رقم اکٹھی ہو سکتی ہے۔ان کو شیر چیتا بنانے کی کیا ضرورت ہے ان کے ہاتھ میں کاسہ تھما دو اور کام پہ لگا دو۔ یہاں ہمارے ہاں سڑکوں پر چندہ سٹاپ بنا دو ۔ اس سپیڈ بریکر پر جو گاڑی آہستہ ہو اس کی سواریوں کے آگے یہی کاسہ دراز کردو جو ملے دعا او رنہ ملے تو کچھ اور ۔کیونکہ ہمارے ہاں اوپری سطح پر بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔اسی میں ہماری زندگی ہے ۔اگر یہ نہیں ہوگا تو کچھ نہیں ہوگا۔ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے آئندہ کے زمانے کو آتا ہوا دیکھیں گے جو کسی گھڑ سوار کی طرح سامنے میدان میں سے آرہاہو اور نظر نہ آتا ہو مگر اس کے گھوڑے کی ٹاپوںسے اٹھنے والی دھول بتلاتی ہو کہ اس گرد وغبار میں کوئی شہہ سوار آ رہاہے جو ہماری دھرتی کی باگ دوڑ سنبھالے گااور ہمیں مصیبتوںسے نجات دلوائے گا۔ اس طرح کئی نجات دہندہ آئے اور اب باہر کے ملکوں میں روپوش ہیں ۔کوئی علاج کی غرض سے کوئی ہمارے معاشرے کی خرابیاں بتلانے کے لئے کلاس روم میں پڑھا کر وہاں پیسے اور اپنا نام بنا رہا ہے ساتھ ہمیں اور بھی بدنام کئے دیتا ہے ۔ اس میں بھی نوجوان ملوث ہوکر اپنا سکھ چین تلاش کرلیتے ہیں ۔

سو یہی بہتر ہے کہ ان میں سے ہر کے ہاتھ میں ٹیوب ویل کے پانی کا پائپ تھما دیں اور کہہ دیں کہ بھائی میرے اس پورے راستے کی دھول مٹی گرد و غبار ختم کرنا ہے اور یہیں ہو سکے تو سڑکوں کے تارکول میں ایک ارب درخت اگانا ہیں اگر آپ اس میں ماہر ہو گئے تو آپ کو ایک کروڑ میں سے کوئی ایک نوکری ضرور دیں گے ۔ بس ذرا محنت کرنا ہے ۔مگر جہاں محنت کی بات آتی ہے وہاں ہم جیسے لوگوں کی جان جاتی ہے ۔سو فراغت اچھی چیز تو ہے مگر ہر اچھی چیز ہمارے لئے زہر بن جاتی ہے ۔ہم وہ کیڑے ہیں جس کومجبوری کے عالم میں دوبارہ اپنی پرانی حالت میں اپنی جگہ واپس رکھنا پڑتا ہے کیونکہ صاف ستھری آب و ہوا ہمارے لئے زہر ِ قاتل بن جاتی ہے ۔جو مشاغل ہم میں پائے جاتے ہیں وہ یونہی پائے جائیں وگرنہ ہمارے گھر بار پائے جائیں گے لیکن ان میں ہم نہیں پائے جائیں گے۔