وہ کسی ٹی وی چینل میں کام کرتا تھا مگر اب غربت کا یہ عالم ہے کہ نوکری چھوٹ جانے کے بعد اس کے گھرانے نے گھر میںسال بھرسے گوشت نہیں کھایا‘مجھے پروفیسر غلام محمد قاصر یاد آگئے جنھوں نے ایک بار یونہی جب غربت کا اور بڑی عید کا ذکر چلا توگپ شپ میں کہا تھا کہ میں ہر بڑی عید کوایک جاننے والے کی گلی کے باہر کھڑا ہو کر کسی بچے سے کہتا کہ جا کر سامنے والے گھر میں گوشت کا یہ پیکٹ دے آ ‘اس لئے کہ وہ مجھ سے ملے تو اس کی عزتِ نفس زخمی نہ ہو‘ اسے شرمندگی نہ ہو ہر سال وہ ایسا ہی کرتے‘ مگر جب ان کے واقف کار انتقال کرگئے تو قاصر جس گھر میں جنازے کے لئے پہنچے وہ اسی گلی میں سامنے والا گھر نہ تھاکوئی اور تھا‘انھوں نے پوچھا سامنے والا گھر کس کا ہے‘کسی نے بتلایا وہ تو کسی اور کا ہے آپ کے دوست تو پندرہ سالوں سے اسی گھر میں رہتے تھے پروفیسر غلام محمد قاصر غلط فہمی میں سالوں تک کسی اور گھر میں گوشت دے آتے تھے‘کچھ روز پہلے ٹی وی میں بتلا رہے تھے کہ ایک ٹی وی کیمرہ مین کام کاج نہ ہونے کے سبب رکشہ چلارہا ہے ‘اس کے بچوں کو دکھلایا گیاروتی بچی کو دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں‘ بازار میں گوشت کا نرخ فی کلو کے حساب سے ہر دکان میںالگ ہے‘جس میں پچاس روپے تک کی اونچ نیچ ہے‘پھر چھوٹا گوشت ایک کلو بھی لیں تو اس میں بھی پا بھر کی ہڈیاں ہوتی ہیں او رکچھ کانٹ چھانٹ میں پھینک دیا جاتا ہے۔
قیمت بڑے گوشت سے دو گنا بلکہ کچھ زیادہ ہے‘ایسے گھر میں کہ ایک وقت کی ہو ایک وقت کی نہ ہو وہاں بچوں کے لئے گوشت جیسی بڑی عیش کو امی ابو کیسے پورا کر کے ان کے آگے یہ ڈش رکھیں‘بعض گھرانوں میں تو رات کو جیسے تیسے پیٹ بھر لیتے ہیں‘ایسے میں یہ ٹی وی اشتہارات بچوں کی ذہنیت کو برباد کر رہے ہیںپھر چونکہ یہ اشتہار ہوتا ہے جس کا مقصد دیکھنے والوں کو ترغیب دلانا ہوتا ہے‘ سو وہ سونے چاندی کے ورق لگا کر اس طرح کھانوں کی تصویریں دکھلاتے ہیں کہ بچہ اگر والدین سے نہ بھی مانگے تو اس کے دل و دماغ پر برا اثر ضرور پڑتا ہے ‘ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات نے ہماری قوم کی غربت زدہ آبادی کو بہت پریشان کیا ہے کیونکہ ٹی وی تو تقریباً سبھی لوگ دیکھتے ہیں ‘ اگر اپنے گھر میں نہیں تو دوسرے کے مکان پر تھوڑی دیر کو سہی دیکھ لیتے ہیںیا دکان پر اپنی یا کسی اور کی ہو یا پھر موبائل پر کوئی پروگرام دیکھتے خبریں سنتے آپ کو بے شمار اشتہار دکھائی دیتے ہیں جن میں چیزوں کی خریداری کا لالچ دیا جاتا ہے جب سے ٹی وی آیا ہے ہماری قوم کے مزاج کے بننے میں ٹی وی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے وہ یہ کہ جہاں اس سے اچھے اور بڑے گھرانوں کے لوگ اپنی طرز کا سبق لیتے ہیں وہاں غریب لوگ ان جلتی بجھتی بتیوں کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں اور زیادہ غرق ہو جاتے ہیں کیا حالت ہے غربت کے تھپیڑے سہنے والے ان لوگوں کی جن کی جیب خالی ہوتی ہے اور انھیں اس قسم کی ایڈمیں بیش قیمت سامان خریدنے کو اور نت نئے کھانوں کی طرف کشش دلائی جاتی ہے ۔
اب ایک غریب آدمی اگر کوئی اشتہاردیکھتا ہے تو اس پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا‘ ڈرامہ کا اصل ٹائم تیس یا چالیس منٹ ہوتا ہے مگر اس دوران گھنٹہ بھر گزارنے کے لئے بیچ بیچ سینکڑوں اشتہارات چلائے جاتے ہیں‘ عام ناظرین کو پورا گھنٹہ سکرین سے اپنی آنکھیں جوڑے رکھنا ہوتا ہے تاکہ دیکھیں کہ اگلے سین میں کیا ہوتا ہے کیونکہ انسان تو تجسس کی پیداوار ہے جس کی وجہ سے اس نے دنیا میں بہت ترقی کر لی ہے ‘میں بات کرتا ہوں ان بچوں کی جو ناسمجھ ہیں جنھوں نے زمانے کے اتار چڑھا¶ نہیں دیکھے ہوتے جو وقت کے نیزے تلے ابھی نہیں آئے ہوتے جن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میرے ماں باپ بہن بھائی یا کوئی اورپیسے کہاں سے لاتے ہیں ‘وہ یہ ٹینشن لیتے ہی نہیں کیونکہ ان کی عمر ہی ایسی ہے ‘ہر عمر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ‘یہ تو جب وہ بڑے ہوتے ہیں شادیاں ہوتی ہیں اور بال بچوں کے اماں باوا بنتے ہیں توپریشانیاں جو خود ان کے ماں باپ کو اپنی اس اولاد کی وجہ سے لاحق تھیں پھر اس موجودہ اولاد کو جوان ہوجانے پرآگے ان کی اولاد کے بارے میںورثے میں ملتی ہیں۔
اب ٹی وی پر ہوٹل والے اپنے اشتہارات دیتے ہیں ‘کسی مصالحہ کمپنی نے اپنا سامان بیچنا ہے اور وہ ڈبہ بند مصالحے کی ایڈ چلاتے ہیں جس میں وہ خوبصورتی سے کاٹے گئے گوشت کے تکہ بوٹی کو سیخ پر چڑھا کر پکانے کے بعد پلیٹ میں ڈالتے ہیں‘تکے بھی تو اس طرح کاٹے گئے ہوتے ہیں کہ ماہر قصاب فنکار معلوم ہو تاہے پھر دس سیکنڈ کے اس اشتہار میں وہ سب کچھ تیزی کے ساتھ بتلا دیا جاتا ہے کہ غریب بچے سوچ میں پڑ جاتے ہیں ‘ان کی نفسیات خراب ہو جاتی ہے ‘بلکہ ان کے ماں باپ کی نفسیات بھی ٹی وی کو بچپنے سے دیکھ کر بڑے ہوتے ہوئے برباد ہو چکی ہوتی ہے‘اب ان کو اگر بڑاگوشت او رچھوٹا گوشت مہیا نہ ہو وہ ضرور دل میں کچھ نہ کچھ سوچتے ہیں جن بچوں کے لب و دہن گوشت کے ذائقے سے آشنا ہوتے ہیں ان میں اکثر تو خود اپنے منہ سے گوشت مانگتے ہیں۔